عمران خان توجہ فرمائیے! 429

پی ڈی ایم کس حال میں ہے؟

پچھلے چار ماہ سے پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے پاکستان بھر میں جلسوں، جلوسوں، پریس کانفرنسز اور چینلز میں ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر رکھا تھا۔ س ڈکیت موومنٹ کی ٹاپ تین پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے سرکردہ لیڈروں جن میں مریم نواز، بلاول زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے اتنی غلیظ اور اینٹی اسٹیٹ زبان استعمال کی کہ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی فوج پر براہ راست نام لے کر نواز شریف نے الزامات لگائے جو کہ سزا یافتہ اور اشتہاری مجرم ہیں اور لندن میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔
محمود خان اچکزئی جیسے دیش دروہی نے دشمن کی زبان بولی مگر کسی عدالت، ادارے اور حکومت نے نوٹس نہیں لیا، حکومت کا خیال ہے کہ اپوزیشن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا یا ان پر مقدمہ بازی کرنے سے یہ طاقتور ہوں گے اور حکومت کمزور ہو گی کیوں کہ میڈیا اس عمل کو جمہوریت پر حملہ قرار دے گا۔ حکومتی دلیل یہ بھی ہے کہ ان کو فری ہینڈ دینے سے یہ خود Expose ہوں گے۔ یہ نقطہ کسی حد تک درست ہے کہ ہمیشہ زیادہ باتیں کرنے والا شخص غلطیاں کرتا ہے۔ زیادہ دعوے کرنے والا خسارے میں رہتا ہے۔
پچھلے چار ماہ کے دوران پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جتنے بھی دعوے اور مطالبے کئے گئے سب سراب ثابت ہوئے۔ نہ ہی وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا اور نہ ہی نئے انتخابات کرانے کی طرف کوئی پیش قدمی ہوئی۔ نہ ہی اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دیئے اور نہ ہی لانگ مارچ یا دھرنا دیا۔ اپوزیشن نے کہا کہ ہم کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے اور سینیٹ انتخابات کا راستہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر روکیں گے۔ اب اپوزیشن ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لے رہی ہے اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان بھی کر چکی ہے اور اس کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ عقل اور شعور رکھنے والے لوگ یہ بات ضرور سوچتے ہوں گے کہ عمران خان ٹھیک کہتا تھا کہ جب ان کرپٹ سیاستدانوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو یہ سب اکھٹے ہو جائیں گے کیوں کہ ان کے مفادات سانجھے ہیں انہوں نے تیس، پینتیس سال تک باریاں لگا کر حکومتیں کیں اور وطن عزیز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اب یہ تحریک بنیادی طور پر دم توڑ چکی ہے کیوں کہ فضل الرحمن اور نواز شریف کی خواہش بلکہ پوری کوشش تھی کہ یہ نظام لپیٹ دیا جائے کیوں کہ ان کی اس حکومت میں کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن ان عقل کے اندھوں کو اپنی اپنی پارٹیوں سے ہی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد نے فضل الرحمن نے کشتی میں اتنا بڑا چھید کر دیا کہ یہ کشتی اب ڈوبنے کے قریب ہے۔ فضل الرحمن پر بڑے شدید الزامات ہیں جو کہ بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز سے متعلق ہے۔ نیب اس کی انکوائری کررہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اندرونی محاذ پر چیلنجز کا سامنا ہے ان کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی استعفیٰ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ دو مسلم لیگی ایم این اے کے عظمی سے استعفیٰ اسپیکر قومی اسمبلی تک پہنچ گئے جس کو منظور کرنے کی کارروائی شروع کی گئی تو دونوں نے دست بستہ استدعا کی کہ ہمارے استعفیٰ منظور نہ کئے جائیں جب کہ اس سے پہلے مریم نواز اعلان کر چکی تھی کہ ہمارے اراکین استعفیٰ ان کے منہ پر ماریں گے اور اس کی اس خواہش اور ہدایت کو بھی پست پشت ڈال دیا گیا حالانکہ ان میں مریم نواز کا دیور تھا یعنی صفدر اعوان کا بھائی لیکن اس نے بھی مریم کی ایک نہ سنی۔
اس وقت تازہ رپورٹس کے مطابق نواز شریف، مریم نواز، بلاول زرداری اور فضل الرحمن جھاگ کی طرح خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں ایسے لگتا ہے کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں۔ لاہور کے جلسے اور پھر الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کے بعد ان کو اپنی عوامی طاقت کا باخوبی پتہ چل چکا ہے جب کہ فضل الرحمن کو کراچی میں ہونے والے اسرائیل کے خلاف ملین مارچ میں سخت مایوسی ہوئی ہے۔
اس وقت نیب کے پاس ٹھیک وقت ہے کہ وہ فضل الرحمن کو بھی راﺅنڈ اپ کرلے کیوں کہ اس کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کرپشن اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات بھی سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ اس کی طاقت کمزور پڑ چکی ہے۔ چوٹ لگانے کا صحیح وقت ہے۔ اپوزیشن کے بیانیے سے قوم کو سخت مایوسی ہوئی ہے اور لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ قوم کے لیڈر اس طرح کے ہوتے ہیں۔ قصہ کوتاہ پی ڈی ایم کا سیاسی تابوت تدفین کے تیار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں