بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 94

ڈوبتا پاکستان

موجودہ الیکشن کے بعد یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ ہمارا دشمن بیرونی ممالک نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی ہم وطن ہیں جو اپنے سینوں پر حب الوطنی کے تمغہ سجائے ملک بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ بیرونی ممالک تو اپنے مفادات میں آپ کو روز اوّل سے استعمال کرتے آرہے ہیں، قصور ان کا نہیں بلکہ قصور تو ہمار اہے کہ ہم نے اپنے ملک کے مفادات کا سودا کیوں کیا اور غیر ملکیوں کے کہنے پر اپنے ہم وطنوں پر ظلم کے پہاڑ کیوں توڑ رہے ہیں اور ان کی حق تلفی کیوں مسلسل کررہے ہیں۔
یہ پاکستانی قوم ہی ہے جو اپنی افواج کے پیچھے جم کر کھڑی ہوگئی جب امریکہ اور روس کی جنگ میں ہمارے حب الوطنوں نے ہمارے ملک کو جھونک دیا۔ مذہب کے نام پر تربیتی کیمپ لگا کر معصوم نوجوانوں کو جنت کے خواب دکھائے اور خودسوزی پر مجبور کرکے دنیا بھر میں اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کا ٹائٹل دلوایا۔ آخر کار اس پورے ڈرامے کو اسٹیج کرکے روس کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے سینے پر فاتح اور سپرپاور کا تمغہ سجا کے امریکہ سرکار ہر معاملہ سے بری الذمہ ہو گیا اور امریکہ کو اس مقام تک پہنچانے کی پاداش میں دہشت گرد قرار پایا۔ جب تک امریکہ روس جنگ جاری رہی۔ یہ تمام نوجوان ”فریڈم فائٹر“ کہلائے اور جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہی استعمال شدہ افراد دہشت گرد سے تعبیر کئے گئے حتیٰ کہ ہماری پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو ایک جہاز میں بٹھا کر فضا میں تحلیل کردیا گیا۔
جس کے نتیجہ میں پورے پاکستان میں افغانیوں نے کنٹرول سنبھال لیا، جس کے نتیجے میں ملک قتل و غارت گری، لوٹ مار اور نفرت کا شکار ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے نتیجہ میں جو خوشی کی لہر دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں اٹھی تھی اور جس کے نتیجہ میں ملک میں ترقی اور خوشحالی آنا چاہئے تھی، مزید انتشار کا شکار ہوگیا۔ پھر پاکستان کے استحکام کا خوف بیرونی ممالک کے چوہدریوں کی نیندیں حرام کرنے لگا تو انہوں نے ایک بار پھر ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کیا کہ جو ملک کو کھوکھلا کرنے میں اور اپنے ہی عوام پر دنیا تنگ کرنے پر مامور کردیئے گئے اور یوں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
حالیہ الیکشن کے بعد جس طرح اسٹیبلشمنٹ کو ڈھال بنا کر ملک دشمن عناصر کو اقتدار دلوایا گیا ہے وہ ایک بہت بڑے اور خطرناک پلان کا حصہ نظر آتا ہے۔ ہماری پاک فوج آئی ایم ایف کے قرضوں کی محتاج ہے۔ بس سے اس سے زیادہ اور کیا کہنا اور لکھنا۔ اگر اس بات کو ہی عوام سمجھ لیں تو پھر کل کا سورج نئی روشنی کے ساتھ طلوع ہوگا اور اگر الو کی طرح آنکھیں بند کرکے اور حالات کی نزاکت کو نہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کا خواب دیکھتے رہے تو پھر بہت جلد ایک خوفناک حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں