عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 391

ڈیزل اور پاکستانی سیاست

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وطن واپس لانے کے لئے حکومت جب بھی بند کمرے میں کوئی اجلاس کرتی ہے تو اسی دوران ملک میں ڈیزل کے بھاﺅ مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پڑھنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ آخر نواز شریف کے وطن واپس لائے جانے سے ڈیزل کی مانگ میں اضافے یعنی راتوں رات اس کی قیمت بڑھ جانے کا کیا تعلق ہے؟ کیا نواز شریف کا کوئی ڈیزل بنانے والی گاڑیوں کا کوئی پلانٹ تو نہیں کہ نواز شریف اپنے لائے جانے کے اقدامات سے پہلے ہی ڈیزل والی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ نہیں یہ بات نہیں، سمجھ دار لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ کس جانب ہے، جی ہاں اسی قد آور اور منجھے ہوئے سیاستدان کی جانب ہے جو جوڑتوڑ کا بادشاہ ہونے کے باوجود نواب زادہ نصر اللہ بننے کی ایکٹنگ کررہا ہے جب بھی لندن میں شریف خاندان کو اپنے خلاف کی جانے والی کسی بھی میٹنگ کی اطلاع اپنے لوگوں سے مل جاتی ہے تو اس کے بعد لندن سے ہی ایک ٹیلی فون مذہبی جماعت کے سربراہ کے پاس چلا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ میدان میں اترتا ہے، اپوزیشن کے دوسری جماعتوں سے رابطے کرتا ہے اس دوران فوٹو سیشن بھی ہوتے ہیں اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی بھی دے دی جاتی ہے ان تمام تر اقدامات کا مقصد حکومت وقت کو بلیک میل کرتے ہوئے ان تمام کاموں سے روکنا ہوتا ہے جو وہ کرنے جارہی ہے اور جو بیوروکریٹ وزیر اعظم کو تمام تر صورتحال سے اپ ڈیٹ کرنے پر مامور ہیں، بدقسمتی سے ان کی وفاداریاں بھی موجودہ باس سے زیادہ سابقہ باس سے ہے اس لئے وہ رائی کا پہاڑ بناتے ہوئے اس طرح کی خوفناک رپورٹ وزیر اعظم کو بھجواتے ہیں کہ انہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو وطن واپس لانے کے فیصلے کو اس وقت مناسب نہیں خیال کرکے اور وہ اپنی رپورٹوں میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر حکومت نے غلطی سے بھی ایسا کچھ کیا تو آسمان ٹوٹ کر نیچے گر جائے گا۔ بلی اور چوہے کا یہ کھیل جاری ہے۔ بند کمروں میں ہونے والے حکومتی اجلاسوں کی اطلاع دینے والے کون ہیں؟ وہ بھی سب کو معلوم ہے، ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“ کا رسوائے زمانہ کردار وہی اقتدار کے بھوکے خودغرض سیاستدان ادا کررہے ہیں جو دوسری جماعتوں سے اٹھ کر عمران خان کے کارواں میں شامل ہوئے تھے۔ وہی لوگ اب اپنی اصلیت میں آگئے ہیں اور وہی لوگ حکومت کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں ان تمام لوگوں کی اصلیت بھی عمران خان پر واضح ہو چکی ہے وہی لوگ جہانگیر ترین اور عمران خان میں دوریاں پیدا کرنے کا باعث ہیں۔ ایسا کرکے ان لوگوں نے عمران خان کو ایک طرح سے تنہا کر دیا تاکہ وہ انہیں اپنے اشاروں پر چلا سکیں۔ جس کا ادراک ابھی عمران خان کو بھی ہو چکا ہے اسی وجہ سے وہ جہانگیر ترین کو واپس لانے کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔ جہانگیر ترین کے وطن واپسی پر پارٹی کے اندر اٹھنے والی شورش میں کسی حد تک کمی آ جائے گی۔ عمران خان کو چاہئے کہ نیب کے مجرم سابق وزیر اعظم نواز شریف ان کے دونوں بیٹوں داماد اور صمدی اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کے لئے قانونی راستہ اختیار کریں ان کے ریڈ وارنٹ جاری کروائے تاکہ برطانیہ اس پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو جائے۔ عمران خان اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے ردعمل کے طور پر اپوزیشن کوئی تحریک چلائے گی یا حکومت کے لئے کوئی مشکل پیدا کردے گی۔ یہ چلیدہ کارتوس کسی کام کے نہیں۔ اس سے کسی کا نشانہ لگانا تو کجا اس سے پٹاخے کا کام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ دوسری جانب بعض میڈیائی دانشوروں سے ایک فضول سی بحث چابی بھرنے کے بعد شروع کر دی ہے کہ نواز شریف کو لانے سے پہلے سابق صدر پرویز مشرف کو بھی لایا جائے یہ ایک عجب طرح کی منطق یا دلیل ہے یعنی میں چوری اس لئے کررہا ہوں کہ فلاں بھی چوری کررہا ہے۔ دوسروں کے جرم کو جواز بنا کر کسی بھی معاشرے میں کسی اور کو جرم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی یعنی جب تک پرویز مشرف کو نہیں لایا جاتا اس وقت تک نوازشریف کو بھی نہ لایا جائے، کیا گھٹیا اور فضول سے دلیل یا منطق میڈیا کے دانشوروں نے دی ہے کہ جس پر اپنا سر دیوار سے مارنے کو جی چاہتا ہے اگر میڈیا والے نواز شریف یا ان کی عنایتوں کے بوجھ تلے دب ہی رہے ہیں تو وہ انہیں بچانے کے لئے کوئی اور ٹھوس دلیل دیں۔ یہ رسوائے زمانہ عادی کرمنل کو تحفظ دینے والا دلیل نہ دیں۔ اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کے آقا کو اس سے کوئی مدد ملے گی۔ قوم کا لوٹا ہوا مال اب قوم کے لٹیروں کو بچانے پر خرچ ہو رہا ہے اسی وجہ سے ڈیزل کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گیا اور میڈیائی دانشور بھی میدان میں آگئے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ قانون و انصاف کو مطلوب تمام مجرموں کو بلا امتیاز انصاف کے کٹہرے میں لانے کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں اور ثابت کریں کہ قائد اعظم کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم ہے۔ قانون اور انصاف دونوں اندھے ہیں جسے کسی رشتہ کی پہچان نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں