عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 406

کرونا یا جوالا مکھی

کیا کرونا وائرس امریکا اور ایک دوسری ابھرتی ہوئی طاقت چین کے درمیان تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بننے جارہا ہے؟ یہ سوال ان دنوں امریکا اور چین کے تھنک ٹینک کے بعد میڈیا اور دوسرے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کے ہاں موضوع بحث بنا ہوا ہے جسے تقویت خود امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے اس آرٹیکل سے مل رہی ہے جو امریکی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے جس میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے کھل کر لکھا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان آئندہ چند ہفتوں میں بہت بڑی تباہی ہونے جارہی ہے اسی طرح کے انکشافات خود چین کے وزارت خارجہ کی جانب سے گزشتہ ہفتہ کئے گئے جس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور چین دونوں کو امریکہ میں موجود ایک سیاسی وائرس سرد جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ یہ سارے انکشاف اور باتیں ہوا میں نہیں کی جارہی ہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی حقیقت ضرور ہے اس لئے کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہوتی ہے اس موجودہ صورتحال یا پھر ممکنہ طور پر ہونے والی جنگ سے ہی کرونا کی حقیقت بھی دنیا پر عیاں ہو جائے گی جس نے طب جیسے مقدس پیشے کے تقدس کو بھی داﺅ پر لگا دیا ہے۔ پڑھن والوں کو بتاتا چلوں کہ امریکہ اور چین میں جاری اس چپقلش کی شروعات 13 اپریل کو عین اس وقت ہوئی جب چین کا ایک بحری بیڑہ ساﺅتھ چائنا سی میں پہنچ گیا جس کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹوں کی بھرمار ہو گئی اور امریکا کو یہ باور کروایا گیا کہ چین نے دانستہ کرونا وائرس کو پھیلا کر پوری دنیا کو اس آفت میں اینگیج کرکے خود یورپی معیشت کی شہ رگ ساﺅتھ چائنا سمندر پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا ہے ان رپورٹوں کے بعد پینٹاگون میں تھرتھری مچ گئی جس کے فوری بعد امریکہ کے سات بڑے جنگی بحری بیڑوں کو ساﺅتھ چائنا سی میں پہنچا دیا گیا اس کے بعد آسٹریا نے بھی امریکا کی حمایت میں اپنے تین بحری بیڑے وہاں پہنچا دیئے اس صورتحال سے خطے میں بے چینی اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بھارت نے بھی امریکی دباﺅ یا ان کی حمایت میں چین سے بلاوجہ پنگا لینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ لداخ سمیت دوسرے متعدد متنازعہ علاقوں میں بھارتی فوج نے لائن آف بارڈر کی خلاف ورزی شروع کردی ہے جہاں دونوں ملکوں کی افواج میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں یہ وہ تمام صورتحال ہیں جو تیسری عالمی جنگ کے بادلوں کے منڈلانے کی اطلاعات دے رہی ہیں۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال نے کرونا وائرس کے پراسراریت اور معمے سے بھی پردوں کے سرکانے کا سلسلہ شروع کردی اہے کہ آخر یہ کرونا وائرس کیا ہے۔۔۔؟ اس کی کوئی حقیقت بھی ہے کہ یا پھر میڈیا کی کوئی ذہنی اختراع ہے۔ اس لئے کہ کرونا وائرس سے لوگوں کی ہلاکت کے بعد دوسری بیماریوں یا پھر اپنے طبعی موت سے مرنے والوں کا سلسلہ یک دم سے ختم ہو گیا۔ یہ وہ تمام صورتحال ہیں جو کرونا کو مشکوک اور سیاسی وائرس ثابت کررہے ہیں اور اب جنگ کی اس موجودہ صورتحال نے تو کرونا کی حقیقت اور بھی واضح کردی ہے۔ امریکا میں ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے لکھے ہوئے ایک کتاب کا بھی بڑے شدومد سے چرچا ہو رہا ہے جو 30 مئی 2017ءمیں شائع ہوئی تھی جس کا عنوان تھا ”جنگ جس سے فرار ممکن نہیں“۔ اب اس کو پڑھنے کے بعد اس طرح سے محسوس ہوتا ہے کہ موصوف نے یہ کتاب خاص طور پر موجودہ صورتحال کے مناسبت سے ہی لکھی ہو اور یہ کوئی انہونی بات نہیں، امریکا میں اس طرح کے انوکھے شاہ کار پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ”بغداد کا چور“ نامی امریکی فلم اس کی مشہور مثال ہے جس کی نمائش کے 40 سال بعد امریکہ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بغداد پر حملہ کرکے اس کے سارے معدنیات اور تیل کی دولت پر قبضہ کرلیا تھا۔ امریکہ میں اسی طرح سے رائے عامہ تیار کی جاتی ہے۔ جس کے بعد اسے عملی شکل دے جاتی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر گراہم ایلیسن نے اپنی کتاب میں 500 سالہ تاریخ میں لڑی جانے والی 16 بڑی جنگوں کی مثال دی ہے جس میں ابھرتی ہوئی طاقتوں نے پہلے موجود طاقتوں کا مقابلہ کیا جن میں سے 12 کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلا۔ اس کتاب میں برطانیہ اور جرمنی کی مثال دی ہے جب بیسویں صدی میں جرمنی برطانیہ سے آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ بوسنیا کے شہر سلجیو میں ایک معمولی سی شاہی خاندان کے افراد کو قتل سے جنگ شروع ہو گئی جسے آج دنیا عالمی جنگ کے نام سے یاد کرتی ہے اور اسے دوسری جنگ عظیم کہتی ہے۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کی مخالفت عالمی سیاست کا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے جب 26 دسمبر 1991ءکو سوویت یونین بکھر گیا اور امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور بن کر ابھرا تو امریکہ میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ اب دنیا میں اس کے سامنے کوئی نظریاتی حریف نہیں بچا۔ جب کہ اس کتاب کے خالق پروفیسر گراہم سے بعد میں جب چینی میڈیا نے سوالات کرکے حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کی تو پروفیسر کا کہنا تھا کہ یہ امریکی حکومت کی بچکانہ حرکت ہے اور کرونا پر حکومتی ناکامی سے توجہ ہٹانا ہے بہرحال دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 2023ءسے پہلے ہی ایک تیسری عالمی جنگ کے لئے فضا تیار کررہا ہے۔ وہ چین کے ساتھ ساتھ اس کے ممکنہ اتحادیوں روس، ایران، ترکی اور پاکستان کو بھی اس جنگ میں لپیٹنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرونا کو سیاسی رنگ دے کر اس کا براہ راست ذمہ دار چین کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حالابنکہ الزام لگانے والوں کے پاس اپنا الزام ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک بھی ثبوت نہیں۔ مگر انہیں تو جنگ کے لئے بہانہ چاہئے۔ جواز چاہئے، جو انہی کرونا وائرس کی شکل میں مل گیا جس کے ذریعے وہ اب اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل امریکا اپنے اقتدار میں کسی کی شراکت داری نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ یورپ کو ہاتھ سے جانے دینا چاہتا ہے اسی لئے اس نے ساﺅتھ چائنا سی کو میدان جنگ کے لئے چن لیا ہے وہ ایک ہی تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ 2023ءسے پہلے ہی ترکی اور اس کی ممکنہ خلافت کے لئے بھی پیش بندی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسی وجہ سے اس جنگ کے لئے راہیں ہموار کی جارہی ہیں اور دنیا بھر میں کسی بھی طرح سے مرنے والے کو کرونا کا شکار ظاہر کرکے اپنے میڈیا سے چین کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے جب کہ چین کے تیار کردہ ان مشینوں سے کرونا کے مریضوں کو نہیں چیک کیا جاتا جو دودھ کا دودھ پانی کا پانی کررہی ہے جو چین نے دنیا بھر کو مفت فراہم کی ہے۔ ورلڈ آرگنائزیشن (WHO) کے کرونا کے خلاف چائنیز اقدامات سے مطمئن ہونے کے باوجود امریکہ کا اس سے مطمئن نہ ہونا بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ اس کارونا وائرس کو جنگ کے جواز کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے یہ جنگ جوطویل مدتی اور فیصلہ کن ہو گی دنیا کا نقشہ بدلنے جارہی ہے مسلمان ممالک کو اس سارے معاملے میں اپنے قرآن و سنت سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے اور کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ دجالی سوچ متحرک ہو چکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں