خوشی کی بات ہے کہ پاکستانیوں کو دوست اور دشمنوں میں تمیز ہوگی، وہ دوستوں کی شکل میں موجود دشمنوں کو پہچاننے تک گئے ہیں جس کا زندہ ثبوت گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابی نتائج ہیں۔ جس میں قوم نے ملک دشمن بیانیہ کو بہت ہی بری طرح سے مسترد کردیا ہے ان فصلی بٹیروں کو ان کی اوقات یاد دلا دی جو انتخابی موسم میں ووٹ لینے کی شکل میں فصل کھانے آتے ہیں اور فصل ہڑپ کرنے کے بعد اس طرح سے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔
غرض اس بار عوام نے اس طرح سے انہیں لاجواب کردیا ہے کہ ان کے چاروں طبق روشن ہو گئے اور اب وہ عوام کا غصہ یا عوام کا بخار اپنے روایتی طریقے سے یہ کہتے ہوئے حکومت پر اتار رہے ہیں کہ حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کروائی ہے اور حکومت نے عوام کا ووٹ چوری کیا ہے۔ س کے بعد اب بلاول بھٹو نے بھی مریم بی بی کی طرح سے ووٹ کو عزت دینے کا وہ گھسا پٹا نعرہ لگانا شروع کردیا ہے حالانکہ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ ملکی عوام ان کی اصلیت جان چکے ہیں۔ گلگت بلتستان کا یہ انتخابی معرکہ ان سیاستدانوں کا ایک طرح سے ٹیسٹ کیس تھا جس میں وہ بہت ہی بری طرح سے ناکام ہو گئے اور انہیں اپنے قد کاٹ کا اندازہ ہو گیا کہ ان کی جڑیں اب عوام میں کتنی باقی رہ گئی ہیں یا پھر وہ پوری طرح سے گملے کے پودے بن گئے ہیں یہ حالت ان دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی ہو گئی ہے جو ملک میں کئی بار حکمرانی کرکے ملک کو قرضوں میں دھکیل چکی ہیں اور وہ دونوں پارٹیاں ایک ایسی سیاسی پارٹی اور ایک ایسے سیاستدان کے ہاتھوں بار بار شکست سے دوچار ہو رہے ہیں کہ ایک تو وہ روایتی یا پیدائشی سیاستدان نہیں دوسرا انہیں ملک کے طاقتور میڈیا کی کوئی حمایت یا سرپرستی حاصل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی وِل اور اپنی سچائی اور ثابت قدمی سے قومی خزانہ لوٹنے والے ان سیاستدانوں کو مسلسل شکست سے دوچار کررہے ہیں۔ یہ اسی عمران خان اور ان کی حکومت کا ہی اثر ہے کہ پولیس میں کچھ ایسے گوہر ایسے نایاب موتی بھی سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں جو دوسروں کے غم دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہوئے ان کی مدد کرکے خود اپنی زندگیوں اور اپنی عزت کو بھی داﺅ پر لگانے سے گریز نہیں کررہے ہیں جی ہاں میں تذکرہ کشمور پولیس کے اس اے ایس آئی محمد بخش کا کررہا ہوں جس نے ایک دکھیاری ماں کی 4 سالہ بچی علیشا کو ان جنسی درندوں کے چنگل سے نکالنے کے لئے خود اپنی جوان بچی کو چارہ کے طور پر استعمال کیا کیونکہ ان جنسی درندوں نے بچی کی واپسی کسی اور جوان لڑکی کو ان کے حوالے کرنے سے مشروط کردی تھی اس طرح سے اے ایس آئی محمد بخش نے اپنی بیٹی کی زندگی اور اس کی آبرو کا رسک لے کر اپنی زندگی کا یہ سب سے بڑا جوا کھیلا۔ نیت صاف ہو تو منزل بھی آسان ہو جاتی ہے، اسی لئے اوپر والے نے بھی اس کی مدد کی کیونکہ دکھیاری ماں کے دل سے نکلنے والی اس دعا نے فرش کے ساتھ ساتھ عرش کو بھی ہلا دیا اور اس طرح سے ملزمان پکڑنے کے بعد اپنے کیفر کردار تک بھی پہنچا دیئے گئے اور علیشا ان جنسی درندوں کے چنگل سے بازیاب کروالی گئی۔
وزیر اعظم عمران خان کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے فوری طور پر اے ایس آئی محمد بخش سے فون پر بات کرکے ان کی عظمت کا اعتراف کیا جس کے بعد سے اے ایس آئی محمد بخش کو ہر طرف سے مبارکباد دی جارہی ہے۔ خود سندھ پولیس نے انہیں ایک بہت بڑا استقبالیہ دیا انہیں 20 لاکھ روپے کا انعام دیا خود اے ایس آئی محمد بخش اور ان کی صاحبزادی کے لئے صدارتی ایوارڈ دینے کی بھی آئی جی سندھ نے سفارش کی جب کہ گورنر سندھ نے علیشا کی والدہ کو 5 لاکھ روپے کا امدادی چیک دیا اور خود علیشا کے علاج کے اخراجات بھی حکومت نے اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا جس نے پورے پاکستانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا اور اسی واقعہ میں پولیس نے جس طرح سے اپنا کردار ادا کیا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پولیس کے اس کردار کو دیکھتے ہوئے تو ہی وزیر اعظم عمران خان کو مذکورہ اے ایس آئی محمد بخش کو ٹیلی فون کرکے مبارکباد دینا پڑی۔ پاکستان بھر کی پولیس کے لئے محمد بخش ایک ماڈل کا درجہ رکھتا ہے، پورے ملک کی پولیس کو اے ایس آئی محمد بخش کو مشعل راہ بناتے ہوئے اس کی تقلید کرنی چاہئے، حقیقی معنوں میں پولسنگ اسی کو کہتے ہیں۔ انسان کا اپنا ضمیر اور اس کے فیصلے دنیا کے ہر قانون سے بالاتر ہوتے ہیں، جس کا زندہ ثبوت محمد بخش کا یہ کارنامہ ہے، جو پولیس رولز اور ضابطہ فوجداری کی حدود و قیود سے آزاد ہے۔
298