بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 279

کمیونٹی میں ”نشہ فار فن Drug for Fun“ کی روایت

پاکستانی کمیونٹی کی نوجوان نسل تو ایک طرف بلکہ یہاں والدین بھی نشہ کی لت میں بری طرح سے مبتلا ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے وقار خان اور مدیحہ ملک کی ڈرگ کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکت کے بعد جو خبریں سامنے آرہی ہیں وہ نہایت تکلیف دہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایک بہت بڑا گروپ جن میں مرد و خواتین شامل ہیں اس عادت میں مبتلا ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ ”ہم تو یہ سب فن کے لئے کرتے ہیں“ اب کوئی یہ پوچھے کہ بھلا یہ کیسا فن ہے کہ جس کے نتیجہ میں بچے یتیم ہوگئے اور کمیونٹی کی بدنامی الگ ہوئی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس گروپ کے مختلف لوگوں نے اپنے اپنے گیراج میں بیٹھک بنا رکھی ہے۔ جہاں ویک اینڈ میٹنگز میں ”سب چلتا ہے“۔ وقار خان کیس میں بھی معلوم ہوا ہے کہ چند اور دوستوں کو بھی وقوع کی رات کسی نئی ڈرگ کو ٹرائی کرنے کے لئے بلایا گیا تھا مگر اتفاق کہیئے کہ یہ چند دوست لیٹ ہو گئے یا یوں کہیئے کہ ان کی موت کا پروانہ ابھی جاری نہیں ہوا تھا، سو سلامت رہے، ایک موصوف اسی گیراج میں ڈرگ لے کر ہفتہ قبل زمین بوس ہو چکے تھے جنہیں بروقت ہسپتال پہنچا کر اور ساری رات ڈاکٹرز کی کوششوں کے بعد نشہ کی کیفیت سے باہر نکالا گیا۔ یہ موصوف بھی کمیونٹی میں بہت باعزت مقام رکھتے ہیں اور اچھے گھرانے سے ان کا تعلق ہے مگر نشہ کی لت پڑ جائے تو پھر انسان کو کہاں کچھ سجھائی دیتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستانی میڈیا اور کمیونٹی کے ذمہ داران کو چاہئے کہ اس پورے معاملہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے پروگرام ترتیب دیں جن سے کمیونٹی کی اصلاح ہو سکے اور ڈرگ میں ملوث افراد کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ فن نہیں بلکہ ان کی زندگی کے لئے خطرہ اور کمیونٹی کے منہ پر کالک کے مترادف ہے۔ دیسی ٹی وی شوز اور اخبارات کے ذریعہ نشہ کی لت کے خلاف تحریک چلائی جائے، والدین اپنے اسکول کالج اور یونیورسٹی جانے والے بچوں پر گہری نظر رکھیں، جن کے بچے ہوسٹل میں رہتے ہیں انہیں وقتاً فوقتاً چیک کیا جائے اور کلوز رابطہ رکھا جائے تاکہ بچوں کے رویہ میں تبدیلی محسوس ہو تو فوری طور پر اس کا سدباب کیا جا سکے نہ کہ صورتحال اپنی آخری حدوں کو چھو لے اور یوں خدانخواستہ ہم کسی نئے حادثہ سے دوچار ہو جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں