بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دانشور دوسرے بستی میں گیا تو وہاں کے حاکم نے اس کو پکڑ کر اس کے خلعت سمیت تمام کپڑے اتار کر بستی سے باہر نکال دیا۔ ننگ دھڑنگ دانشور گل بازاروں سے گزرنے لگا تو اس کو دیکھ کر کتے بھونکنے لگے، اس نے کتوں کو ڈرانے کے لئے پتھر اٹھانا چاہا لیکن گندگی کی وجہ سے پتھر بھی جمے ہوئے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر دانشور چالای کہ یہ کیسی ظالموں کی بستی ہے کہ انہوں نے کتوں کو کھول رکھا ہے اور پتھروں کو باندھ دیا ہے۔
حاکم کو اس دانشور کی حالت کو دیکھ کر رحم آگیا۔ دانشور سے معلوم کیا اب کیا چاہتا ہے، اس نے کہا ”تیری یہ ہی مہربانی کافی ہو گی کہ تو میرے کپڑے لوٹا دے“۔
اُردو کے نامور شاعت استاد قمر جلالوی کا ایک شعر ہے۔
گلستان کو جب لہو کی ضرورت پڑی
تو سب سے پہلی ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ہندوستان سے ہجرت کے بعد سنا ہے کہ استاد قمر جلالوی کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ لالو کھیت میں ایک سائیکل کی دوکان پر پنچر لگا کر اپنی روزی روٹی پوری کرتے تھے۔
موجودہ زمانے میں قائد اعظم کی اولادوں کو کراچی کی بسوں میں سفر کرتے ہوئے میڈیا میں کئی بار دکھایا گیا ہے۔ اس ہی طرح معروف شاعر حبیب جالب کے بیٹے کو مرغی کی دوکان پر اس کا گوشت فروخت کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
پاکستان سے محبت کرنے والے قیام پاکستان سے ہی محرومیاں کے شکار ہونا شروع ہوئے، آہستہ آہستہ یہ لوگ زندگی کے ہر شعبہ میں محرومیوں کا شکار ہوتے رہے مگر پاکستان کی محبت کی خاطر اس کے لئے ہر طرح کی قربانیاں بھی دیتے رہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی چکائے جو واجب نہیں تھے
ابتداءمیں انہوں نے بے غرضی سے پاکستان کی تعمیر، ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر جب ان کو ہر شعبہءہائے زندگی سے فارغ کردیا تو وہ خاموش رہ کر بھی پاکستان کی محبت کو اپنے دل میں بسائے ملک و قوم کی سربلندی کے لئے انفرادی طور پر برسر پیکار رہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں نے اس فیصلہ کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ جب دارالحکومت کو ان کے شہر سے دور کرکے اسلام آباد منتقل کیا گیا یہ اپنے دل میں اسلام پاکستان اور اس کی فوج کے سب سے بڑے حامی رہے۔ اس کے باوجود ان کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ جب ان کو دیوار سے لگا کر کراچی میں فاطمہ جناح کو کامیاب کروانے کے جرم کی سزا دی گئی تو بھی یہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے، انہوں نے پاکستان کی محبت میں اپنے ان بنگالی دیرینا ساتھیوں کا جنہوں نے ان کے ساتھ پاکستان کی تحریک میں صف اوّل میں حصہ لیا مگر جب انہوں نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کے خلاف تحریک چلا کر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں لائے تو انہوں نے اپنے بنگالی ساتھیوں کی مخالفت کی اور پاکستان سے محبت کا عملی ثبوت اس طرح پیش کیا کہ تقریباً ساٹھ سال سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پاکستان کا جھنڈا لہرا کر پاکستان سے وفاداری کی سزا بھگت رہے ہیں مگر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں جب بھٹو صاحب نے سندھ میں لسانی بل لا کر اردو زبان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی تو بھی یہ پاکستان کی محبت میں سرشار رہے مگر ان میں کوٹہ سسٹم کے خلاف غصہ برقرار رہا وہ ہر ان جماعتوں کو اس امید پر ووٹ دے کر اپنے اپنے علاقوں سے منتخب کروا کر اسمبلیوں میں بھیجنتے رہے مگر کوئی جماعت بھی ان کی محرومیوں کو زبان تک دینے کو تیار نہیں تھی۔
جب الطاف حسین نے ان کی محرومیوں کو زبان دے کر ان کو یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلوائیں گے تو وہ تقریباً تیس سال تک الطاف حسین کو ووٹ، سپورٹ، نوٹ اور خون دیتے رہے مگر ان کے حقوق ان کو نہیں حاصل ہو سکے۔ مسلسل تیسل سال تک ان کی محرومیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ وہ الطاف حسین کو صرف اس بنیاد پر سپورٹ کرتے رہے کہ وہ ان کے حقوق کے پاسبان ہیں۔
وہ مسلسل الطاف حسین کو اس وجہ سے سپورٹ کرتے رہے کہ انہوں نے ان کی محرومیوں کا مداوا تو نہیں کروا سکے مگر کم از کم ان کے حقوق کا نعرہ تو بلند کیا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ الطاف حسین نے جب بھی ان سے کچھ طلب کیا یہ دام درم سخن کے ساتھ ووٹ نوٹ اور جانیں نچھاور کرتے رہے مگر ان کی محرومیاں اپنی جگہ قائم و دائم رہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی سیاست میں سب سے بڑا کردار اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد جب ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی اور جب پی آئی اے کے طیارے کو اغواءکرکے کابل پہنچایا گیا تو اس کا الزام بھٹو صاحب کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو پر لگایا گیا۔ اس ملک میں پیپلزپارٹی کے خلاف مختلف قوتوں کو کھڑا کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کراچی میں یہ کردار الطاف حسین کو دیا گیا۔ جنہوں نے مہاجروں کے حقوق کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کو مہاجر قومی موومنٹ کا نام دیا گیا، مہاجروں کی محرومیوں نے اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار نے ایم کیو ایم کو وجود دلایا۔ اس کے باوجود مگر پاکستان سے محبت ان کے دل سے کوئی دور نہیں کر سکا۔ یہ حقیقت ہے جب بھی پاکستان کے مختلف حصوں میں محرومیاں بڑھیں تو ہر حصہ کے لوگوں نے تنگ آکر پاکستان مخالف راہ اختیار کرنے کی کوششیں کیں، کہیں ان کو کامیابی حاصل ہوئی جیسا کہ بنگالی مسلمانوں نے جب اپنی محرومیوں کا ذمہ دار پاکستان کی اشرافیہ یا اسٹیبلشمنٹ کو سمجھا تو مجبوراً علیحدگی کی تحریک چلا کر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں لے آئے۔ اس ہی طرح سندھ میں جی ایم سید کی سربراہی میں سندھو دیش کی آوازیں اٹھنے لگیں۔ صوبہ سرحد میں پختون زملے کی تحریک میں بھی پاکستان مخالف رویہ اختیار کیا گیا۔ بلوچستان میں تو قیام پاکستان سے اب تک کئی مرتبہ مختلف فوجی حکمرانی سمیت سیاسی حکمران کے دور میں بھی بہت سے آپریشن کے ذریعہ پاکستان مخالف تحریکوں کے خلاف کارروائی کی گئی مگر کراچی، حیدرآباد میں سندھ کے مختلف شہروں میں رہنے والے مہاجرین نے پاکستان سے اپنی محبت کا مظاہرہ کرتے رہے اس کے باوجود کہ ان کے سب سے محبوب رہنما الطاف حسین نے جب پاکستان کے خلاف نعرہ زنی کی تو مہاجرین اپنے ساتھ گزشتہ ساٹھ ستر سال کی محرومیوں کو بھلا کر ان کے اس عمل کی مخالفت پر مجبور ہو گئے۔ ان مہاجرین کے جذبہ حب الوطنی کی قدر کرنے کے بجائے ان پر مستقل شک و شبہ کا اظہار کیا جانے لگا ان کے اس تاثر کو کہ ان کے ساتھ تعصب کا مستقل رویہ اختیار کیا جارہا ہے موجودہ دور میں اور مزید تقویت پہنچائی جارہی ہے، کوئی بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کو تیار نہیں۔ کوئی بھی حکمران ان کے سر پر ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں، ان حکمرانوں میں فوجی حکمراں ہوں، یا سیاسی حکمران جن میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف یا عمران خان بھی شامل ہیں۔
کوئی تو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو ان کے خلاف ناروا سلوک کے خلاف آواز بلند کرے، کوئی تو ہو جو ان زخموں پر مرہم رکھے، کوئی تو ہو جو ان کے سر پر ہاتھ رکھے۔ کسی کو تو ان پر رحم آئے۔
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
315