262

کھلا خط ۔۔۔ بنام سلطان جمیل نسیم بھائی

سلام: کہتے تو مجھے تھے کہ میں اپنی ہر بات آپ سے منوا لیتا ہوں مگر یہ کیا؟ اس قدر عجلت؟ اتنی رازداری؟ ہم لوگوں سے اتنی بے زاری؟ مجھے علم ہے کہ ہم سب سے زیادہ آپ کو صبا اکبر آبادی صاحب کی صحبت کی تلاش تھی، یہ آپ کی سعادتمندی سہی مگر ہمیں بھی تو آپ کی صحبت ہمیشہ درکار رہتی تھی، یہ تو بتا دیں کہ ہم کیا کریں؟
نقل مکانی کیا نقل جہانی کی مصروفیت ہو گی مگر پھر بھی یہ سطریں بھیج رہا ہوں، جب فرصت ہو تو دیکھ لیجئے گا۔ یہ بتانے یا لکھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے کہ ہم سبھی آپ کے رخصت ہوجانے پہ مغموم ہیں مگر سایہ سایہ دھوپ کے خالق کو اب یہ کیا سمجھانا کہ جس طرح سائے کے ساتھ دھوپ ہے، اسی طرح آپ کے چلے جانے کے دکھ کے ساتھ یہ خوشی بھی ہے کہ آپ نے دست دعا کا پیش لفظ لکھتے وقت جس اعلی مقام کی دعا مانگی تھی، وہی دعا قبول ہو گئی۔ کھویا ہوا آدمی پڑھتے وقت مجھے کہاں معلوم تھا کہ ایک دن میں آپ کو کھو دوں گا، مگر نہیں میں نے آپ کو بھلا کھویا کہاں ہے ؟ اب یہ جملہ لکھ دیا ہے تو اس کو مٹانا کیا، چلیں آپ اس کو پڑھے بغیر آگے بڑھ جائیں۔ اب آپ کے بعد مجھ کو یا میرے لکھے کو مٹانے کے لئے دوسرے جو موجود ہیں، وہ کر لیں گے یہ کام، اب میں کیوں مٹاوں اپنا لکھا۔
سلطان بھائی، آپ کو وہاں اس اعلی مقام پہ جہاں پہنچنے کی آپ کو ہمیشہ آرزو رہی، کسی شناسا نے کھوجا؟ مجھے علم ہے کہ بھائی قمر علی عباسی تو خوشی سے نہال ہو رہےہوں گے۔ انہوں نے نیو یارک میں رہتے ہوے آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اب بھلا کیوں تنہا رہنے دیں گے۔ دیکھیں اگر وہ نہیں مل سکے اب تک تو ± خود ہی ڈھونڈ نکالیں کہ میں جانتا ہوں آپ کا یارانہ بہت پرانا ہےیا ان کو ڈھونڈنے میں زیڈ اے بخاری شاید معاونت کر سکیں، مگر ہاں۔۔۔ اب یہ نہ ہو کہ قمر علی عباسی سے ملنے کے بعد ہم کو یکسر بھول جائیں کہ آپ جانتے ہیں ان سے دوستانہ میرا بھی کچھ کم نہیں۔ اور ہاں اگر ملاقات اور گپ شپ میں ریڈیو کا ذکر نکل آئے تو دیکھیں ، حمایت علی شاعر، محمد علی اور ارشاد علی اگر مل جائیں تو میرا سلام کہہ دیجئے گا۔
مجھے علم نہیں اقبال حیدر بھائی کس طرف ہیں؟ وہ بھی تو وہاں پہنچ گئے ہیں، انہوں نے بھی بہت جلدی برتی، اب کیا شکایت کریں، ہایئکو کی طرح انہوں نے بھی اختصار کو ترجیح دی اور زندگی مختصر کر کے چلے گئے۔ آپ کو تو یاد ہو گا، شکاگو، آپ، اقبال حیدر بھائی اور بھائی تسلیم الہی زلفی آئے، میرے مہمان ہوئے، کیا دن اور کیا رات، ہم نے کچھ نہ کیا سوائے گپ شپ کے، مجھے یاد ہے آپ نے کہا تھا کہ اس دورے کے درمیان ہم ادب پہ کوئی بات نہیں کریں گے اور ہم نے کیا بھی اسی طرح۔ ٹھیک ہی تو ہے، جب ادب ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو جائے تو پھر اس پر بات کیا کرنا، یہ تو اب ان لوگوں کا شغل ہے جن کا ادب سےکوئی تعلق نہیں ہے۔
ادب پہ ادب لطیف یاد آیا، وہ بھائی ناصر زیدی بھی اب وہاں موجود ہیں، تلاش کریں، وہ اسلام آباد سے وہاں پہنچے ہیں شاید کراچی اور اسلام آباد والوں کا بہشتی بلاک قریب قریب نہ ہو، فون ہی کر لیں اگر ان کا نمبر مل جائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ادبی رسالوں کے مدیران کو قریب قریب رکھا گیا ہے یا نہیں، شاید وہ فنون والے احمد ندیم قاسمی بھی وہیں کہیں ہوں، جمیل جالبی کا تو سنا ہے کہ وہ جامعہ کراچی کے کئی لوگوں کے ساتھ ہیں جن میں میرے والد ش۔ضحی بھی شامل ہیں۔ابا سے اگر بات ہو تو بتا دیں کہ انہوں نے ستر سال قبل ٹھیک کہا تھا کہ پاکستان کی تقدیر بلوچستان کی ترقی سے مربوط ہے، لگ رہا کہ بہت جلد ایسا ہی ہو گا۔ ایک بات کا خیال رکھیے گا۔ یہ جالبی صاحب سے اگر ملاقات ہو تا انہیں بتا دیں کہ وہ اپنے بھائی بابر خان کی طرف سے پریشان نہ ہوں، بابر بھائی اور ہم رابطے میں رہتے ہیں، وہ خیریت سے ہیں۔ یہ ہی کچھ بھائی شبنم رومانی کے لئے کہ ان کے بیٹے فیصل عظیم بھی خیریت سے ہیں، وہ پریشان نہ ہوں۔ آپ کے افسانے تو دنیا میں مقبول ہیں اور رہیں گے، اردو زبان کو جو قلم آپ نے عطا کیا وہ اب کہاں موجودہے؟ مقبولیت پہ یاد آیا، بھارت میں تو آپ کے افسانوں کے دیوانے بہت زیادہ ہیں، یہ بات میرے یار سلمان انصاری کی زبان پہ رہتی ہے۔ شکاگو میں موجودسلمان ، میرے لئے بھارتی جاسوس کی طرح کام کرتے ہیں کہ وہ خیر سے مکمل پاکستانی ہونے کو باوجود ، سسرال بھارتی رکھتے ہیں، ان کی خیریت بھی، ملاقات ہونے پر ان کے خسر جناب جانثار اختر کو بتا دیجئے گا۔
یاد رہے کہ ناصر زیدی یا ندیم قاسمی سے صہبا لکھنوئی صاحب کا ذکر نہ کیجے گا، جی وہی رسالی رقابت شاید اب تک ہو۔ افکار ، فنون ، اوراق، ماہ نو،مہر نیم روز، جام نو اور ادب لطیف۔۔۔ اب تفصیل میں کیا جانا، آپ کہیں گے میں ایک شام کا قصہ لے کر بیٹھ گیا۔
اب ایک کام کی بات۔ مجھے علم ہے کہ آپ ان ہنگاموں سے ہمیشہ بے نیاز رہے، آپ کبھی خود نمائی میں مبتلا نہیں رہے اور نہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، اللہ نے آپ کو اور آپ کے قلم کو وہ عزت دے رکھی تھی کہ شہرت آپ کے پیچھے رہی، آپ کبھی اس کے پیچھے نہیں گئے سو آپ نے روانگی میں من مانی کی اب ہماری باری ہے، انکار مت کیجے گا۔ میں نے سہ ماہی انشا کے بھائی صفدر علی خان اور آپ کے دلارے بھائی تاجدار عادل سے بات کی ہے، ہم بہت جلد ایک بہت خوبصورت، یادگار اور شاندار خصوصی شمارہ نکال رہے ہیں۔۔۔بس آپ کو اطلاع دینا مقصود ہے، کوئی اجازت نہیں مانگ رہا۔ جی جی مجھے معلوم ہے جس نے میں آئینہ ہوں جیسی شاہکار کتاب لکھی ہو اس کو ان روایتی چیزوں سے کیا مطلب؟
اس سے پہلے کہ یہ خط ختم کروں یہ بتا دوں کہ ابھی میں نے کسی سے کہا ہے کہ آپ کے جانے کے بعد افسانہ خود فسانہ ہو گیا ہے۔ کچھ کہہ نہیں سکتا کہ میں افسانہ کبھی لکھوں گا یا نہیں اور شاید بھائی اخلاق احمد کا بھی حال ہو مگر وہ زیادہ اہم اور ضروری قلم کار ہیں، میں ان سے التجا کروں گا کہ میرا قلم بھلے ٹوٹ جائے، ان کو اب آپ کے بعد افسانہ زندہ رکھنا ہو گا۔ اور ہاں، آپ میرے مزاح کے بہت شیدائی تھے، اب میرا قلم اس کا بھی ضامن نہیں رہا۔۔کیا کروں جو سچ ہے وہ کہہ رہا ہوں، نہیں لکھنا مجھے اب کچھ بھی، کون پڑھے گا اب میرا لکھا۔ میرے مزاح کی تو خیر ہو، اب آپ کے پاس مشتاق احمد یوسفی ہیں، بھلا آپ کہاں محسوس کریں گے کمی میرے مزاح کی۔ مجھے مزاح کی راہ دکھانے والے آپ اوربھائی قمر علی عباسی تھے، اب آپ دونوں ہی نہیں تو آہ و زاری تو کر سکتا ہوں مزاح نگاری نہیں۔
ارے یہ کیا غضب ہو گیا، اوپر سے یہاں تک، میں نثر ہی کی بات کرتا چلا گیا۔ یہ بھائی جون ایلیا اور جمال احسانی مجھ سے کتنا ناراض ہو جائیں گے کہ ناصر زیدی کا ذکر بھی کیا تو ادبی جریدے کے حوالے سے، ان سے ملاقات ہو تو یہ اس خط کا ذکر نہ کیجے گا بس میرا بہت بہت سلام پیش کر دیجئے گا۔ سنا ہے کہ بھائی جون ایلیا، احمد فراز اور جمال احسانی ان دنوں غالب اور میر کے یہاں بہت دیکھے جا رہے ہیں، اللہ رحم کرے نہ جانے کس طرح کی محافل سج رہی ہوں گی؟ ایک بار تو سنا ہے کہ غالب نے غلام فرید صابری کی آمد پر محفل سماں منعقد کر ڈالی تھی جو عالم لوہار نے آ کر ختم کروائی، عالم لوہار کا چمٹا دیکھ کر سنا یہ ہے کہ غالب بہت سہم گئے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ عالم لوہار کو سلطان راہی نے بھیجا تھا۔ مجھے کسی نے یہ بھی بتایا کہ علامہ اقبال ، غالب کی محفلیں دیکھ کر بہت رنجیدہ ہیں مگر وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ غالب سو رہے ہوتے تو بات تھی، شاید اقبال ان کو جگانے میں کامیاب ہو جاتے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ مرزا غالب سوتے ہی نہیں ہیں۔۔۔ خیر محمد اقبال کی رنجیدگی کا سبب تو ان کا دیکھا وہ خواب بھی ہے جس پر سنا ہے کہ محمد علی جناح نے اب ان سے تعلقات ختم کر دیئے ہیں، خدا کرے ان دونوں کی رنجشیں جلد ختم ہو جائیں۔
سلطان بھائی، یہ موضوع کہیں اور نکل جائے گا، چلیں اب اجازت دیں، اپنا بہت بہت خیال رکھیے گا، ہم ابھی آپ کو اور آپ کی یادوں کو زندہ رکھیں گے، آپ سے میں لکھنا سیکھا تھا، اب آپ سے ہی تھوڑا تھوڑا مرنا سیکھنے کی کوشش کروں گا۔
آپ کا ،
بے نام و بے نشان شاگرد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں