عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 80

کیا الیکشن ہو رہے ہیں؟

کیا مملکت خداداد پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ یہ ایک اس طرح کا سوال ہے جس نے ووٹ لینے اور ووٹ ڈالنے والے دونوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ ایک غیر یقینی سی صورتحال اس الیکشن سے متعلق پیدا ہو چکی ہے کیونکہ حکومت وقت جس طرح کے نتائج والے الیکشن کروانا چاہتی ہے وہ اپنے تمام تر وسائل کے استعمال کرنے کے باوجود اب تک کامیاب نہ ہو سکے جس کی وجہ سے وہ تمام تر سیاسی پارٹیاں جو ان کی بیساکھیوں پر یہ میدان جیتنا چاہ رہی تھی وہی اب اس کھیل سے بھاگنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کررہے ہیں جس میں سرفہرست چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لئے مرے جانے والے میاں صاحب ہیں۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اسی کو کہتے ہیں کہ نہ اب پہلے والا پاکستان رہا اور نہ ہی پہلے والی وہ عوام کہ جس کو ڈرا دھمکا کر ان سے کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک بننے کے بعد جتنے بھی مارشل لاءلگے ہیں ان کے تمام مظالم اور بربریت، دہشت اور مظالم کا مقابلہ ان سے کروایا جائے تو موجودہ حکومت کی دہشت اور مظالم ان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ملک کے وہ عوام جسے وہ بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکتے چلے آرہے ہیں انہیں قابو کیوں نہ کرسکے، کیوں کہ وہ اپنی مرضی والے الیکشن کا انعقاد کرنے میں اب تک ناکام ہیں، کیوں اپنی عوام کو وہ اپنے بندوق کے نوک پر چلانے میں ناکام ہو رہے ہیں تو ان ہی دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ دراصل خوف کا بت پاش پاش ہو چکا ہے۔ اب پاکستانی عوام چاہے وہ بچے ہو یا بوڑھے لڑکیاں ہو یا بوڑھی عورتیں وہ نہ تو تشدد سے نہ ہی گرفتاریوں سے اور نہ ہی جیل جانے سے گھبراتی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں اور مرد اس حقیقی آزادی کی جنگ کی سزا میں جیل کاٹ رہے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی نے اپنی رہائی کے لئے کوئی بھیک مانگی ہو یا پھر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوئی بات کی ہو۔
پاکستانی عوام بہت سمجھ در اور محب الوطن ہیں، انہیں اچھے اور برے کی تمیز ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے وہ حکومت کے حلف یافتہ ان سیاسی جماعتوں کا پوری طرح سے بائیکاٹ کر چکی ہیں۔ ان کے جلسے اور کارنر میٹنگ ویرانگی کے چلتے پھرتے اشتہار بن چکے ہیں جب کہ جو جیل میں ہیں ان کے لئے ان کے چاہنے والے خیبرپختونخواہ میں لاکھوں کی تعداد میں جوش و جذبے کے ساتھ نکل رہے ہیں۔ یہ ہی وہ خوف ہے جس سے حکومتی حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ تمام تر حکومتی وسائل کے استعمال کے باوجود انہیں ڈر نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ اس 8 فروری والے الیکشن میں اپنی ضمانتیں ضبط کروالیں گے۔ اس وجہ سے وہ اب اس الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں مگر حکومت چونکہ مغربی طاقتوں سے فروری میں الیکشن کروانے کا وعدہ کرچکی ہے اس وجہ سے وہ اپنے اس عہد و پیماں سے ہٹنے کو تیار نہیں اور وہ ان تمام سیاسی جماعتوں کو یہ یقین دہانی کروارہے ہیں کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں، انہیں گھبرانے کی یا ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ حالات ان کے کنٹرول میں ہیں جس طرح وہ چاہتے ہیں۔ اسی طرح سے ہوگا چونکہ الیکشن اور اس کی سائنس سے متعلق وہ سیاسی جماعتیں حکمرانی کرنے والوں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتی ہیں۔ اس لئے وہ ان کی باتوں میں نہیں آرہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ عوام کے دلوں سے تمام تر کوششوں کے باوجود عمران خان کی محبت نہیں نکال سکے اس لئے ان سب کا متفقہ فیصلہ الیکشن سے بھاگنے کا ہے یا پھر الیکشن کی تاریخ بڑھانے کا ہے کہ الیکشن فروری کے بجائے اپریل یا جون میں کئے جائیں اس کے لئے اب حکومتی سطح پر غور و خوض کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، ویسے بھی ملک میں ممکنہ دہشت گردی کے واقعات کی ایک الرٹ جاری کئے جانے کی بھی اطلاع ملی ہے، کوئی بھی بہانہ کرکے یا جواز پیدا کرکے الیکشن میں تاخیر کرنے کا منصوبہ بھی بنا لیا گیا ہے۔
یہ سب تبدیلیاں بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں اور یہ بوکھلاہٹ ملکی عوام کی بیداری اور ان کے یکجہتی اور اپنے حقیقی لیڈر عمران خان سے محبت کا نتیجہ ہے جس پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں