عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 405

کیا بھارت ٹوٹنے جارہا ہے؟

پوری دنیا اس وقت کرونا وائرس کی شکل میں ایک مشکل صورتحال کا سامنا کررہی ہے۔ دوسری جانب اکنامک وار کے سائے بھی دنیا کے بعض حصوں میں منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چین اور بھارت کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس میں امریکہ کے ثالثی کے کردار کی خبریں زیرگردش ہیں جب کہ چین موجودہ صورتحال کی ابتداءکو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت 370 کے نئی ترمیم کو اپنی اور پاکستان کی خودمختاری پر حملہ سے تشبیہہ دے کر کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس وقت ہی دونوں ممالک نے بھارت کے اس اقدام کو غیر قانونی اور ان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا تھا لیکن طاقت اور تکبر کے نشے میں دھت بھارت نے اسے نظر انداز کردیا تھا جو اب چین کے آگے ناک رگڑنے تک کو تیار ہو چکا ہے۔ اس طرح سے بھارت جہاں کرونا وائرس کے تباہ کاری سے معاشی طور پر لڑ رہا ہے وہیں اپنی سرحدوں پر پڑوسی ممالک کے حملوں کے آگے بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی طاقت یا پھر مصلحت کا اندازہ اس صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ چین یا پاکستان جیسی ملک کا مقابلہ تو کیا وہ تو نیپال جیسے ملک کا بھی مقابلہ کرنے کے لائق نہ رہا۔ نیپال نے بھارت کے چار فوجیوں کو ہلاک اور لاتعداد کو زخمی کردیا۔ جس کے ردعمل میں بھارت نے جوابی فائرنگ کرنے کے بجائے گورکھا فورس کے ان 32 ہزار فوجیوں کو غیر مسلح کر دیا جن کا تعلق نیپال سے تھا اور وہ نیپالی شہریت رکھتے تھے۔
بھارتی حکومت کو یہ ڈر تھا کہ جنگ کے دوران یہ گورکھا فورس بھارتی گولہ بارود نیپال کے بجائے خود بھارت کے خلاف ہی استعمال نہ کرے۔ خود بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی 62 سالہ تاریخ میں دفاعی لحاظ سے اتنا برا وقت بھارت پر پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اس وقت ایسے لگ رہا ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت یا پھر پوری بی جے پی ہی بھنگ پی کر سو گئی ہے۔ سب لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے، کوئی بھارتی عوام کو اصل صورتحال سے متعلق آگاہ ہی نہیں کررہا ہے۔ بھارتی فوج کا سربراہ بھی پریشان ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے، اس لئے کہ بھارتی دفاعی امور کے مشیر اجیت ڈوول نے کہا ہے کہ وہ اس کشیدگی کا سیاسی حل تلاش کررہے ہیں اور ان کے سیاسی حل کا فارمولہ بھی بھارتی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر پر عیاں ہو چکا ہے کہ بھارتی تخریب کار ایجنسی ”را“ نے بیک وقت نیپال اور گلگت میں حکومت کے خلاف فسادات کروانے کی کوشش کی اور دونوں ہی مقامات سے پولیس اور سیکورٹی فورسز نے انڈین دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا۔ دراصل اجیت ڈوول جو اس وقت بھارتی جنتا پارٹی کو چلانے کی صورت میں مودی حکومت کو چلا رہے ہیں ان کی کوشش بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے مسائل حل کروانے کی ہوتی ہے۔ اجیت ڈوول کا پورا فلسفہ ہی دہشت گردوں کے گرد گھومتا ہے۔ جس کی زندہ مثال کلبھوشن ہے جو پاکستان کی حراست میں ہے، چین نے اپنے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے ذریعے بھارت کو وارننگ دے دی ہے کہ وہ ممکنہ جنگ جو امریکہ اور چین کے مابین چھڑ سکتی ہے اگر اس جنگ میں بھارت غیر جانبدار نہ رہا تو وہ اپنی شناخت کھو بیٹھے گا۔ اس دھمکی کے بعد سے بھارتی پالیسی سازوں کی حالت خراب ہو گئی ہے اور وہ سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ مزید کتنا امریکا پر انحصار کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ بھارت کے لئے تو خطرہ روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔ نیپال جیسا ملک بھی جنگ کے میدان میں بھارت کے مدمقابل آگیا ہے۔ نیپال کی حکومت نے پارلیمنٹ میں ان تینوں متنازعہ علاقوں کو اپنا علاقہ ظاہر کرکے اس کا نقشہ بھی بنا لیا ہے جس کو بھارت ایک عرصہ سے اپنا علاقہ بتلا رہا تھا۔ جس کے بعد نیپالی حکومت نے بھارت سے لگنے والی سرحدوں پر اپنی 15 پوسٹیں بنوا کر وہاں اپنے فوج، ٹینک اور دوسرا جنگی سامان پہنچا دیا ہے۔ جس سے یہ ہی تاثر ملتا ہے کہ نیپال اب پہلے والا نیپال نہیں رہا بلکہ اب وہ اپنی خودمختاری کے لئے مرنے مارنے تک کے لئے تیار ہو گیا ہے جب کہ وہ بھارت کا واحد پڑوسی ہندو ملک ہے جس سے بھارت پر حکمرانی کرنے والوں کے مائینڈ سیٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت سے دوسرے ممالک کیا خود کوئی ہندو ملک بھی راضی نہیں۔
اب امریکا کی جانب سے بھارت کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا گیا ہے کہ جنگ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ ہوائی کے مقام پر جلد ہی امریکی سیکریٹری خارجہ پومپیو کی چین کے ایک بڑے سطح کے پالیسی میکروں سے میٹنگ ہو گی جس میں اس مسئلہ سمیت کرونا وائرس اور دوسرے معاملات پر نہ صرف گفتگو ہو گی بلکہ اس کا حل بھی تلاش کیا جائے گا۔ اس وقت تک بھارت کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے جب کہ نیپال کی جانب سے بھارتی علاقوں میں فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے جس پر بھارت کے سابق فوجی جرنل وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ نیپال یہ سب کچھ چین کے اشارے پر کررہا ہے۔ ورنہ نیپال میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ بھارت جیسے ملک رپ گولہ باری کی غلطی کرے۔ وکرم سنگھ یہ کہتے وقت یہ بھول گئے کہ نیپال اگر چین کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہا ہے تو خود بھارت بھی تو امریکہ کے اشارے پر ہی چین جیسے ابھرتی ہوئی طاقت سے پنگا لینے کی غلطی کررہا ہے۔ جس کا خمیازہ وہ اپنے ہی 60 ہزار مربع گزر علاقے میں چینی فوجیوں کے داخل ہونے کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ اب بھارت میں اتنی ہمت اور جرات نہیں کہ چینی فوج سے وہ علاقہ واپس لے، یہ وہ صورتحال ہے جس کا اگر ہل نہیں نکلا تو کسیبھی وقت تیسری عالمی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ اس جنگ کے ساتھ کرونا وائرس کی جنگ الگ سے چلتی رہے گی۔ پاکستان کو چین کے ساتھ مل کر اپنے پڑوسی کو بدلنے کے فارمولے پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اپنے روایتی اور مستقل دشمن سے نجات ممکن نہیں۔ یہ ہی ایک بدلتے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں