عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 475

کیا ہم آزاد ہیں؟

ہم لوگ ہر سال 14 اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں اور دنیا والوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ ہم ایک آزاد قوم اور آزاد ملک ہیں۔ پچھلے 73 سالوں سے ہم سب بحیثیت قوم یہ ہی سب کچھ کرتے آرہے ہیں۔ کیا ہم لوگ واقعی آزاد ہیں۔۔۔؟ کیا ہمارے ادارے اور اداروں کے مجموعے سے بننے والی ریاست آزاد ہے؟ وہ ریاست جو اپنے اندر بسنے والے تمام لوگوں کی بلاتفریق نسل و مذہب ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ کیا وہ اپنے ماں ہونے اور اپنے بچوں کے جان و مال کے تحفظ کا فرض بہ احسن و خوبی سر انجام دے رہی ہے؟ اس کا جواب نہ تو ریاست کے پاس ہے اور نہ ہی اس کے اداروں کے پاس۔ اس لئے کے ریاست کے دو وزرائے اعظموں کا نا حق خون ابھی تک ریاست کے ماتھے پر جھومر کی طرح سے فریاد لئے جگمگا رہا ہے کہ ان کے قاتل کب کٹہرے میں لائیں جائیں گے؟ کیا ریاست کے پاس اس کا کوئی جواب ہے۔ ریاست جب اپنے دو وزراءاعظموں کو انصاف نہیں دے سکی تو پھر وہ عام لوگوں کو انصاف کس طرح سے فراہم کرے گی۔ آخر وہ کون سی مجبوری ہے جو ریاست ابھی تک ان قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے میں ناکام ہے کہ ہم آزاد ہونے کے باوجود غلاموں سے بھی زیادہ بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے مقدمات ریاست کی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہیں؟؟؟
آخر کیا وجہ ہے کہ قتل کی دونوں وارداتوں کے محرکات کا علم ہونے کے باوجود ان کے ماسٹر مائنڈ آج تک گرفتار نہ ہو سکے؟ آخر وہ کون سی مجبوریاں ہیں کہ جس پر ریاست بھی حالات و واقعات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے جو خود ریاست کی آزادی پر بہت بڑا سوال ہے کہ جو ریاست اپنے وزیر اعظموں کو پہلے تو تحفظ دینے میں ناکام رہی اس کے بعد ان وارداتوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی نہیں کر سکی۔ اگر یہ دونوں واقعات قیام پاکستان سے قبل ہوتے تو کیا اس وقت کی حکومت بھی اسی طرح کا ردعمل کرتی؟ بالکل بھی نہیں۔ اول تو اس طرح کی کسی واردات کے رونما ہونے کی نوبت ہی پیش نہیں آتی اور اگر اس طرح سے کوئی واقعہ ہو بھی جاتا تو اسے سزا دے کر نشان عبرت بنا دیا جاتا لیکن افسوس کہ آزاد ہونے والے پاکستان کی ریاست یہ سب کچھ کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ قتل کی ان دونوں وارداتوں کی کڑیاں بیرونی سازش سے جا کر ملتی ہیں۔ دونوں وارداتوں کا جائے مقام لیاقت باغ ہے اور بڑے مجمع کے سامنے بے خوف و خطر ہو کر واردات کی گئی ہے۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ واردات میں قانون سے زیادہ طاقت ور قوتیں ملوث تھیں اور یہ وارداتیں افراد کی سطح سے بلند ہو کر ملکی سطح پر کروائی گئی تھیں یعنی ان وارداتوں میں دوسرے ملک اور ان کے حساس ادارے بھی ملوث تھے جن کے شواہد بھی سامنے آگئے اس کے باوجود ریاست پاکستان کی جانب سے مجرمانہ خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔ جشن آزادی کے موقع پر ان وارداتوں کا تذکرہ میں اس لئے کررہا ہوں کہ جشن منانے والوں کو اپنی آزادی کی اصلیت کا علم ہو سکے کہ ہم لوگ کتنے آزاد ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے امریلی لاہور میں کھلے عام فائرنگ کرکے دو افراد کو قتل کرنے کے باوجود بذریعہ عدالت کے ملک سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عافیہ صدیقی پاکستان سے گرفتار کرکے امریکہ پہنچا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی ہم اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ کیا کسی دوسرے آزاد ملک میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ اس سے ہم غلام ہی اچھے تھے۔ کسی ایک کے تو غلام تھے۔ اب آزاد ہونے کے باوجود جو چاہتا ہے منہ اٹھائے آکر ہمارے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کرتا ہے۔ چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر۔ ہر ایک کا طریقہ واردات یکساں ہوتا ہے ہم پاکستانی اتنے زیادہ آزاد ہیں کہ اپنے گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں، کوئی بھی کسی بھی وقت کسی کے گھر میں گھس کر اس کی جان بھی لے سکتا ہے اور آن بھی۔ اور اس کے بعد ہمارے ریاستی ادارے ان حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے سے اسی طرح سے قاصر دکھائی دیتے ہیں جس طرح سے لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیربھٹو کے سانحات میں ملوث دہشت گردوں کے ساتھ انہوں نے کیا۔ آج تک قوم کو یہ ہی نہیں معلوم ہوا کہ ان وارداتوں میں کون لوگ ملوث تھے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کسی ایک بات کے بارے میں بھی کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ بات یا یہ مفروضہ درست ہوگا۔ یہ حال ہے اتنے بڑی وارداتوں کا۔ پڑھنے والے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دوسرے مقدمات کا کیا حال ہوتا ہو گا لیکن اس کے باوجود ہم خود کو آزاد بھی کہتے ہیں اور ہر سال آزادی کا جشن بھی ہلالی پرچم کو لہراتے ہوئے ملی قومی نغموں کی گونج میں مناتے ہیں۔ کاش کے ہمارے ادارے آزاد ہوتے۔ اور وہ اپنے فرائض سیاستدانوں کی خوشنودی کے بجائے ریاست کے آئین کے مطابق سر انجام دیتے تو آزادی کے سورج کو طلوع ہونے اور اس سے پورے چمن کو منور ہونے میں آسانی ہوتی لیکن افسوس کے ادارے جن سے مل کر ریاست بنتی ہے وہی سیاستدانوں کے گھروں کی لونڈیاں اور کنیزیں بن چکی ہیں پھر کس طرح سے ریاست آزاد ہو گئی جب سیاستدانوں کی غالب اکثریت ہی آزادی سے نا آشنا ہو اور انہیں ملک و حب الوطنی سے ہی کوئی دلچسپی نہ ہو تو پھر کون اداروں اور اس کے مجموعہ سے وجود میں آنے والی ریاست کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلائے گا۔۔۔؟ کون؟ کون؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں