عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 94

گالم گلوچ

بنیادی سا سوال یہ اس وقت پاکستان کی سیاست میں زیر گردش ہے کہ کون کس سے ڈر گیا، گھبرا گیا یا پھر تھرتھرا گیا۔ سسٹم عمران خان سے یا پھر عمران خان سسٹم سے۔۔۔ اس کا جواب کوئی بہت بڑا راکٹ سائنس نہیں۔ میں صرف دو ہی مثالوں سے اس سوال کا جواب لانے کی کوشش کروں گا۔ نمبر ایک: عمران خان پچھلے 290 دنوں سے جیل میں ہے ان کا جیل میں رہنا یا پھر جیل میں رکھنا کس کی ضرورت یا مجبوری ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک آزاد خودمختار عمران خان سے کون خوفزدہ ہے؟ دوسری مثال حال ہی میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کا قسم اٹھا کر صحافیوں کے روبرو یہ اعتراف کرنا کہ نہ تو نواز شریف کو باہر بھجوانے سے ان کا کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ دو ایسی یونیک مثالیں ہیں کہ اسے سن کر پڑھ کر کوئی اندھا اور غیر پڑھا لکھا شخص ہی یہ جان جائے گا۔ پہچان جائے گا کہ کون کس سے خوفزدہ ہے؟ کون کس سے ڈرا ہوا ہے، سہما ہوا ہے؟ گھبرایا ہوا ہے، اسی ایک جواب میں لاتعداد دوسرے سوالوں کے جوابات بھی مضمر ہیں کہ کس کی کتنی مقبولیت ہے؟ کون عوام کے دلوں پر حکمرانی کررہا ہے؟ انتخابات میں دھاندلی کس سنے کروائی وغیرہ وغیرہ۔
ملک کا سسٹم اس وقت ہچکولے کھا رہا ہے، بے لچک ہو جانے کی وجہ سے اب کسی بھی وقت اس کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا پورا اندیشہ ہے، جس طرح سے یا پھر جس ڈگری پر رکھ کر سسٹم کو چلایا جارہا ہے اس کی نظیر قیام پاکستان سے تاحال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ پہلی بار سسٹم نے پوری طرح سے ملکی عوام کو نظر انداز کرکے خود کو ملک کی دھتکاری ہوئی اقلیت کے جھولی میں ڈال کر ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے سسٹم پوری طرح سے لرزش میں آچکا ہے۔ اس پر ایک نہ رکنے والا لرزاں طاری ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملک کا وہ سسٹم جو پہلے دوسروں کو بلیک میل کرکے ملک کو بحرانوں سے نکال کر صحیح ڈگری پر لانے میں کامیاب ہو جایا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے وہی سسٹم اب دوسروں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر ایک اس طرح کی بندگلی میں داخل ہو چکا ہے۔ جہاں سے باہر نکلنے کے لئے اس کے پاس ”یوٹرن“ لینے کے اور کوئی آپشن ہی نہیں اور سسٹم کے ”یوٹرن“ لینے کا مقصد اپنے ہی تھوکے ہوئے کو چاٹنا ہے یعنی خوفزدہ کرنے یا پھر توڑنے کے لئے جس عمران خان کو 290 روز سے جھوٹے مقدمات میں قید رکھا گیا ہے اس سے معافی مانگ کر ان کے سامنے سجدہ ریز ہو کر ان سے ڈیل کرنا ہے۔ اس کے سوا پاکستانی سسٹم کے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں، خود کو اس بندگلی سے نکلوانے اور ملک کو اس بحران سے باہر لانے کے۔۔۔ ایسا کرنے سے ہی ان کی کھوئی ہوئی عزت بھی واپس آسکتی ہے اور ملک سے سیاسی اور مالی بحران کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ شکر ہے کہ دیر آئے درست آئے کے مصداق سسٹم اس راہ پر چل پڑا ہے اور ہاتھ سے لگائی ہوئی گانٹھوں کو اب دانتوں کے ذریعے ایک ایک کرکے کھولنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہ سارے کے سارے کام غیر محسوس طریقے سے کئے جائیں گے تاکہ کسی پر سسٹم کی کمزوری یا پھر مجبوری کا راز فاش نہ ہو لیکن تاڑنے والے قیامت کی نگاہ رکھنے کے مصداق سب کو اس راز کا اس اصلیت کا علم ہے۔ انہیں تو حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ایک صحیح راہ پر چلنے میں غیر معمولی تاخیر کرکے ملک اور قوم کو کتنا بڑا نقصان پہنچایا گیا۔ ملک کی سلامتی اور اس کی ترقی سے کس قدر بے رحمی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سسٹم یا پھر سسٹم کو بلیک میل کرنے والے شریف برادران اور زرداری گروپ یا پھر ملکی عدلیہ۔۔۔ ملکی عوام کو ہی اس طرح کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نطر رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں