Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 437

گاﺅں

یہ مضمون میں نے دس سال پہلے لکھا تھا، ممکن ہے حالات گاﺅں کے بدل چکے ہوں لیکن ایسا نظر نہیں آتا کیونکہ تہتر سال میں بہت کم ہی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے شہروں میں ہی رابطے کے ذرائع اتنے نہیں تھے لیکن اب اتنی ترقی تو ہو گئی ہے کہ ذرا سی خبر ایک پل میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر پہنچ جاتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اب بھی ایسے گاﺅں ہوں گے جو ان خبروں سے بے نیاز ہیں۔ میرے حسات سے بہت خوش قسمت ہیں۔ بہرحال رابطوں کا ذریعہ شہروں کی حد تک تو بہت زیادہ ہے مگر گاﺅں دیہات میں کم ہے۔ اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہمارے ملک کے بعض دیہاتوں میں رہنے والے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں لیکن مزید جن ضروریات سے محروم ہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں لیکن بہت سی شہری ضروریات سے اگر یہ دیہات کے لوگ محروم ہیں تو بہت خوش قسمت ہیں انہیں بے شمار چیزوں کی محرومی کا احساس بھی نہیں ہے۔ وہ سکون سے زندگی گزارتے ہیں کیونکہ آسائشوں میں جتنا اضافہ ہوتا جارہا ہے زندگی میں بے سکونی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ کافی عرصہ پہلے میری ملاقات ایک دیہاتی جوڑے سے ہوئی جو کراچی آئے ہوئے تھے، باتوں کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں ٹیلی ویژن نہیں ہے، مجھے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کمال ہے آپ بغیر ٹی وی کے کیسے زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے خالص دیہاتی لہجے میں بڑے سکون سے جواب دیا ۔ بھائی جان کیا ٹی وی جسم کا کوئی حصہ ہے کہ جس کے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی یا کہ آکسیجن ہے جو زندگی کے لئے ضروری ہے۔ ارے بھائی یہاں پتہ نہیں کیسے لوگ سارا سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہماری شامیں ہمارے خاندان ہمارے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قصے کہانیاں، قہقہے لگاتے ہوئے مزے مزے کے پکوان کھاتے ہوئے گزرتی ہیں آپ اس خوشی کا تصور نہیں کر سکتے اور میں نے سوچا بے شک جہاں محبت ہو وہاں مفلسی کا احساس ماند پڑ جاتا ہے اور جہاں آسائشوں کی بھرمار ہو وہاں محبت کا احساس ماند پڑ جاتا ہے وہ دونوں گھر جنت سے کم نہیں۔ جہاں مفلسی ہو یا امارت لیکن محبت کا درخت ضرور ہو کسی نے کیا خواب کہا ہے۔ شہروں کی اونچی اونچی عمارات میں کہاں جو پیار اب بھی گاﺅں کی انگنائیوں میں ہے۔ گاﺅں کی انگنائی محبت کا گہوارہ ہے، چھوٹے بڑے مٹی سے پتے گھر ایک طرف درخت کی کسی شاخ سے جھولا لٹکا ہوا ہے تو ایک طرف چند مٹی کے گھڑے رکھتے ہوئے ہیں، وہیں قریب میں وہی سے مکھن بنانے کا سامان رکھا ہوا ہے۔ چھپر تلے مٹی کا چولہا جس میں لکڑیوں یا اپلوں سے آگ جلائی جارہی ہے۔ توے پر روٹیاں تھوپی جارہی ہیں۔ بیچ میں چار پائیاں پڑی ہیں یا ایک بڑا سا تخت جس پر سب مل بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، شام کو یہاں پر پنچائیت جمتی ہے، گھر کے افراد کبھی محلے کے دوست یا رشتہ دار جمع ہوتے ہیں، خوب ہنسی مذاق قہقہے جمتے ہیں، گاﺅں کی صبح بڑی خوبصورت ہوتی ہے جب تمام کسان کام پر جارہے ہوتے ہیں، عورتیں کھانا باندھ کر ساتھ کرتی ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی محنت کش ہوتی ہیں اور فصل کے وقت مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ دوپہر کڑی دھوپ میں آم بیری اور مختلف درختوں کے سائے میں سستانے کے لئے ہنسی مذاق کرتے لوگ مٹی میں کھیلتے ہوئے بچے درختوں کے اوپر لٹکے ہوئے جھولوں سے جھولا جھولتی ہوئی کمسن لڑکیاں پگڈنڈیوں پر منچلے گیت سناتا تھا۔ نوجوان سائیکل سوار غرض سب کچھ آج بھی وہی ہے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ محبتیں باقی ہیں۔
میں ان دونوں میاں بیوی کی طرف دیکھ رہا تھا ان کے چہروں پر کس قدر سکون و اطمینان تھا، چہرے پر فکر اور پریشانی کی ایک بھی جھری نہیں تھی، وہ کہنے لگا ہمارے گاﺅں کی زندگی بے مقصد نہیں ہے، ہم اس ملک کی معیشت کا حصہ ہیں، ہم جو اناج اگاتے ہیں وہ اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی غذا بننے کے علاوہ ملک سے باہر بھی جاتا ہے اور ہمارے ملک میں زرمبادلہ آتا ہے۔ میں نے سوچا بے شک یہ آدمی صحیح کہہ رہا ہے اس کی زندگی اس کا کام ایک تعمیر ہے ایک مقصد ہے یہ اس ملک کی ترقی اور خوش حالی میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ یہ اس بے مقصد آدمی سے ہزار درجے بہتر ہے جو انکم ٹیکس، ایکسائز، کسٹم، بجلی یا کسی بھی اہم ادارے میں بیٹھا رشوت لے رہا ہے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔ اس رشوت خور کے مکروہ چہرے پر بے سکونی ہے۔ پریشانی کی لکیریں ہیں جب کہ اس دیہاتی کے چہرے پر پاکیزگی ہے، سکون ہے اور یہ صحت مند ہے۔ یہ نسل در نسل ہاری ہیں یا کسان ہیں۔ ان ہاریوں کے آباﺅ اجداد بھی ہاری تھے۔ ان کی آمدنی میں نا کوئی اتنا اضافہ ہوا ہے کہ بہتر طریقے سے بچوں کی پرورش کریں نہ ہی ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آسکی۔ ہاں ان سے کام لینے والے زمین دار ارب اور کھرب پتی بن چکے ہیں اور سیاست میں کروڑوں لگا دیتے ہیں جو ان غریب ہاریوں کے خون پسینے سے ان کو ملتا ہے۔ صدیوں سے ان کے اباﺅ اجداد گیہوں چاول اور مختلف اناج سبزی اور پھلوں کی کاشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا کہ کھانے کی ٹیبل پر جو روٹیاں، چاول اور دوسرے اناج کی اور کھانے پینے کی چیزیں رکھی ہیں۔ ان کو اگانے میں یہ گاﺅں کے لوگوں نے کتنی محنت کی، کتنے پاپڑ بیلے ہوں گے۔ یہ وہی دیہاتی لوگ ہیں جو شہروں میں جاہل اجڈ اور گنوار کہلاتے ہیں۔ جن علاقوں میں اناج سبزی اور پھلوں کی کاشت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے کھیت اور باغات ہوتے ہیں اس کے آس پاس یہ محنتی کسان اپنی رہائش اختیار کرلیتے ہیں اور وہ علاقہ ایک گاﺅں کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ان میں بے شمار گاﺅں آج کے نہیں بلکہ صدیوں سے آباد ہیں یہاں بڑی بڑی زمینوں پر کاشت ہوتی ہے۔ زمینوں کے مالک شہروں میں رہتے ہیں۔ لیکن اپنے علاقے کے بادشاہ کہلاتے ہیں جب کہ اس سارے اناج کی پیداوار کا دارومدار ان غریب ہاریوں پر ہے۔ عام خیال یہ پایا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ گاﺅں اور دیہات کے لوگوں پر جاگیرداروں اور وڈیروں کا بہت اثر ہوتا ہے ان کی مرضی کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنی مرضی سے کسی کو ووٹ بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے یہ لوگ سیاسی بے شعور کہلاتے ہیں لیکن ذرا حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ لوگ مجبور ہیں اگر وہ اپنے علاقے کے جاگیردار زمین دار یا وڈیرے کی مرضی کے بغیر کسی باہر والے کا ساتھ دیں گے تو وہ لوگ ان زمینوں سے نکالے جائیں گے بلکہ ان کو اور ان کے خاندان ولاوں کو جان کے لالے پڑ جائیں گے ان کو شہروں میں کون پوچھے گا،کون پناہ دے گا، وہ اپنے ٹھکانے کو نہیں چھوڑ سکتے، اپنے خاندان کو دربدر نہیں کرسکتے، نہ اپنے خاندان کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، لہذا ان کو وہی کرنا پڑتا ہے جو ان کے اباﺅ اجداد ہمیشہ سے کرتے چلے آرہی ہیں۔ اپنے چوہدری اپنے سائیں اپنے سردار کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہنا ورنہ ان ہاتھوں کو کٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس معاملے میں شہری لوگ آزاد ہیں وہ ووٹ دیتے وقت اپنا ذاتی فائدہ سامنے رکھتے ہیں کسی کو پرمٹ چاہئے کسی کو کوئی لائسنس کسی کو دو نمبری کام کے لئے چھوٹ چاہئے۔ کوئی ٹھیکوں کا خواہش مند ہے تو کوئی ترقی یا ترقی کا خواب دیکھ رہا ہے۔ غرض ہر طرح کی لالچ کو سیاسی شعور کا نام دیا جارہا ہے جب کہ گاﺅں کے لوگوں کی سادہ لوحی دیکھئے کہ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان کا ٹھکانہ اور روزی محفوظ رہے اسی وجہ سے وہ اپنے زمین دار، وڈیرے سردار کی بات مانتے ہیں اور انہی کو اپنا ناخدا بھی مانتے ہیں یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آرہا ہے اور اسی سادگی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ یہ ہمارے ملک کی معیشت کا اہم حصہ ہیں دوسرے ممالک میں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں ایسے غیر ملکی کسانوں کو گرین کارڈ یئے گئے جو غیر ممالک مثلاً میکسیکو وغیرہ سے یہاں آکر کھیتوں میں کام کررہے تھے ان ہی لوگوں کے طفیل ہمارے ملک کے بے شمار لوگوں کوجعلی کھیتوں کے کاغذات پر گرین کارڈ ملے جب کہ انہوں نے کھیتوں کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ ہمارے ملک میں ان ہاریوں سے بہت محنت کرائی جاتی ہے جب کہ معاوضہ نہایت قلیل ہوتا ہے۔ زمین دار دولت سے کھیل رہے ہیں اور ہاریوں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی کیوں کہ حکومت ان ہی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھوں میں رہتی ہے۔ ہمارے یہاں کے دیہاتی جاہل اجڈ گنوار کہلاتے ہیں کیوں کہ زور زور سے بولتے ہیں۔ صاف اور کھری بات منہ پر کہہ دیتے ہیں۔ لباس میں سلیقہ نہیں، ہر بات میں سادگی، کھانا بھی خالص اسلامی طریقے سے کھاتے ہیں، چمچے کانٹے سے دور رہتے ہیں۔ جب کہ ڈنر سوٹ میں ملبوس ڈائننگ ٹیبل پر چھری کانٹا لئے ہوئے دھیمی آواز میں گفتگو کرتا ہوا، شہری بے ایمان دھوکے باز جھوٹا فراڈیا، رشوت خور بدکردار شخص تہذیب یافتہ ہے یعنی سیدھا سادھا، کھرا اور سچا غریب دیہاتی، بدتہذیب اور دھیما، چمک دمک والا شاندار جھوٹا امیر تہذیب یافتہ یہ کیا مذاق ہے یارو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں