Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 363

ہم شکل

میںاکثر سوچتا ہوں یا اللہ یہ کیا تیری حکمت ہے کہ ایک ہی شکل کے دو آدمی اور کردار میں زمین آسمان کا فرققصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارا پاکستان جانے کا اتفاق ہوا پڑاو¿ گلشن اقبال میں تھا چونکہ کافی عرصے بعد جانا ہوا تھا تو کافی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں مختلف قسم کے ڈپارٹمنٹل ٹائپ کے اسٹور کھل گئے تھے۔جہاں ضروریات زندگی کی تقریبا” تمام اشیائ دستیاب تھیں۔ایک دن صبح صبح میں ٹہلتا ہوا ایک اسٹور میں داخل ہوا اور وہاں رکھی اشیائ کا جائزہ لینے لگا اچانک ایک شخص میرے سامنے نمودار ہوا۔ جیسے ہی میری نظر اس شخص پر پڑی میں سکتے میں آگیا۔ ابھی میں حیران پریشان اس شخص کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے مسکرا کر لب کھولے جناب میں جانتا ہوں آپ اتنے حیران و پریشان کیوں ہیں لیکن تسلّی رکھیں میں وہ نہیں ہوں جو آپ سمجھ رہے ہیں میں ایک معمولی آدمی ہوں اور اس اسٹور میں نوکری کرتا ہوں آپ اطمینان رکھیں میں زرداری نہیں ہوں میرا نام محمد اشرف ہے اور بد قسمتی سے میری شکل بہت زیادہ زرداری سے ملتی ہے۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ابھی کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ گویا ہوا آپ مجھے یہاں نئے معلوم ہوتے ہیں کیوں کے یہاں اس محلّے میں رہنے والے تقریبا” تمام افراد کو میں جانتاہوں وہ بھی جو کبھی کبھار اس اسٹور میں آتے ہیں۔اس کی بات سن کر اور بغور جائزہ لینے کے بعد میں صورت حال بھانپ چکا تھا میں نے کہا ظاہر ہے آپ بالکل ہمارے صدر صاحب سے مشابہ ہیں اس وجہ سے تمام لوگ ہی آپ کو جانتے ہوں گے ایک لمحے کو تو میں بھی دھوکہ کھاگیا تھا۔جی ہاں اس نے ایک لمبی اور ٹھنڈی سانس لے کر کہا اس ہی بات کی تو شرمندگی ہے۔شرمندگی ؟ میں نے بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا آپ اسے شرمندگی کہہ رہے ہیں یہ بات تو آپ کی شہرت کا باعث ہے۔صدر صاحب سے اتنی زیادہ مشابہت ہونا تو ہر شخص کو چونکا دیتا ہوگا اور ہر شخص آپ سے بات کرنے کا خواہش مند ہوجاتا ہوگا آپ کو رشک نہیں آتا۔ رشک ؟ اس نے ناگواری سے میری طرف دیکھا۔بھائی شہرت تو زرداری صاحب کی بھی بہت ہے لیکن یقین کریں میں ایسی شہرت کا خواہش مند نہیں ہوں۔مجھے اس کی بات میں چھپے دکھ کا اندازہ ہوگیا تھا ۔میں جتنے عرصے بھی پاکستان میں رہا اس سے روز ملنے جاتا تھا۔ وہ بہت ہی دلچسپ آدمی تھا اس کا نام محمد اشرف تھا مجھے کچھ دوسرے لوگوں سے اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ نہایت ہی ذہین قابل اور پڑھا لکھا شخص تھا چونکہ غریب تھا تعلقات بھی نہیں تھے نا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ رہا لہذا کوئی اچھی نوکری حاصل نا کرسکا اور ایک اسٹور میں ملازمت کرلی بہت ہی سمجھدار شخص تھا زرداری سے مشابہت ضرور تھی لیکن اس کے چہرے پر عیّاری اور مکّاری نہیں تھی کردار میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اسے ایک سیدھا سادھا اور سچّا انسان کہا جاسکتا ہے ہم اکثر مختلف موضوع پر بات کرتے تھے وہ ایک وطن پرست تھا اور ملکی حالات سے بہت زیادہ آرزدہ تھا۔میں نے کہا تسلّی رکھو ایک نا ایک دن حالات بہتر ہوجائیں گے ،لیکن اس کا کہنا تھا کہ کوئی حل نہیں ہے کہ ملک کے حالات سدھر سکیں۔میں نے کہا کسی حد تک تم اپنی جگہ ٹھیک ہو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ بے اصولی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔دنیا کے تمام ممالک میں مسائل ہیں لیکن ہمارے یہاں اکثریت کے پاس زندگی گزارنے کا کوئی اصول نہیں ہے۔میں اس کی پریشانی محسوس کرسکتا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یا اللہ یہ کیا تیری حکمت ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ دونوں ہم شکل ایک دوسرے کی جگہ ہوتے لیکن ایک صدارت کی کرسی پر ہے اور دوسرا لوگوں کی کرسیاں سیدھی کررہا ہے۔پھر اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ نہیں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیوں کہ ہمارا خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہمیں کوئی اچھا ایماندار حکمران دیا جائے کیونکہ ہم خود سدھرنا نہیں چاہتے اور خدا کہتا ہے کہ جس قوم کے جیسے اعمال ہوں گے ان پر ایسے ہی حکمران مسلّط کئے جائیں گے اور اس قوم کا یہ حال ہے کہ ہر شخص کسی ایک پارٹی کا اور اس کے لیڈر کا چاہنے والا ہے اور اس کا لیڈر ہی سب سے اچھا اور ایماندار ہے باقی سب چور ہیں۔تمام سیاستدان ایک دوسرے پر ہر وقت الزام لگارہے ہوتے ہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ثبوت ہیں۔حوالے دیتے ہیں سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجود اپنے لیڈر کو سچّا اور دوسرے کو چور کہتے رہیں گے۔بھائی تمام باتوں اور حقائق پر غور تو کرو کس نے کیا اچھا کیا اور کون کتنا بڑا چور ہے۔کوئی اصول نہیں ہے بس جس ڈگر پر چل رہے ہیں چلے جارہے ہیں۔انسان اپنے بنائے ہوئے اصولوں سے تو بغاوت کرسکتا ہے لیکن قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کو نظر انداز کرنے کا انجام صرف تباہی اور بربادی ہے چاہے وہ فرد واحد کی طرف سے ہو ایک پورے ملک یا قوم کی طرف سے ہو تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلسل نافرمانیوں کے بعد قوموں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔اور تاریخ میں ایسے کئی واقعات کے شواہد بھی موجود ہیں خدا نے قوموں کو بے ش مار مواقع دئیے اور اب بھی مل رہے ہیں انسان کی تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن ایک وقت ایسا آیا جب قدرت کو انسان پر رحم آیا اور انسان کو سمجھ بوجھ عطا کی جس نے انسان کو بہتر ز ندگی گزارنے کے لئے کچھ اصول وضع کرنے پر مجبور کیا۔ان میں سب سے پہلا اصول انسانیت تھا پھر اتحاد اور بھا ئی چارگی اور ان اصولوں کو توڑنے کی سزا انتہائی عبرت ناک ہے اور آج انسان ان تمام اصولوں سے بغاوت کررہا ہے۔اور نتیجے میں اس کا جو انجام ہورہا ہے وہ ہمیں جگہ جگہ نظر آرہا ہے۔ اس انجام کا شکار فرد واحد بادشاہ وقت اور کہیں پورا ملک اور پوری قوم آج آپ ساری دنیا پر نظر ڈالیں صرف وہی ملک اور قومیں سکون کی زندگی گزاررہے ہیں جو ان اصولوں پر سختی سے قائم ہیں اور یہ صرف گنتی کے رہ گئے ہیں تباہی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ ان اصولوں کو دوبارہ سختی سے تھام لیا جائے جو قدرت نے ہمارے لئے وضع کئے ہیں۔سزا اس پوری قوم کے لئے بھی ہوتی ہے جو حکمرانوں کے عیوب کی پردہ داری کرے قدرت سے نافرمانی کرنے والے حکمرانوں کو اپنے سر پر مسلّط رکھے ہو۔ہر شخص حقائق کو تسلیم کرے دل میں یہ سوچتے ہوئے بھی کہ وہ جس شخص کی حمایت کررہا ہے وہ غلط ہے اس کے باوجود اس کی حمایت کرے۔آج صرف ہم نہیں بلکہ پوری دنیا مصیبت میں گوفتار ہے ایک نظر نا آنے والی مصیبت جس کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔ صرف قیاس آرائیاں ہیں۔آج انسان بے شمار ایسے کام کرنے اور اصولوں پر چلنے کے لئے نا چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہوگیا ہے اس نے اپنے آپ کو جس ماحول میں ڈھال لیا ہے جس طریقے سے زندگی گزار رہا ہے اب وہ زندگی اس سے تعاون کرتی نظر نہیں آرہی ہے اسے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اپنے کردار اپنے عمل پر نظرثانی کرنا پڑے گی اور خود اپنی بھلائی کے لئے وہ راستہ اپنانا ہوگا جس کے لئے قدرت انسان کو مجبور کررہی ہے نا کہ زرداری کا بتایا ہوا راستہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں