بالآخر اسرائیل اور ایران کے درمیان پانچ روزہ جارحانہ کارروائیوں کے بعد جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔ اس جنگ بندی کے سلسلے میں قطر کی حکومت کی ثالثی سامنے آئی ہے جہاں ایران نے امریکہ کے فوجی کیمپ پر حملہ کیا امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی کے سلسلے میں۔ امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر 20 جون 2025ءکو حملہ کیا۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے 13 جون کے ایران پر حملے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ ہ ایران کو دو ہفتوں کا وقت دینا چہاتے ہیں کہ وہ اپنے تمام وہ فیصلے ج جوہری قوت سے متعلق ہیں پر نظرثانی کرتے ہوئے دوبارہ امریکہ کے ساتھ باہم مذاکرات پر حامی بھرے۔ جوہری توانائی اور ایٹم بم بنانے کے سلسلے میں۔ مگر اس اعلان کے دو روز بعد ہی امریکہ کی طرف سے یہ حملہ عمل میں آگیا۔ امریکہ کے اس حملے نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی طور پر ایک ہیجان برپا کیا گو کہ امریکی صدر اور امریکی حکومتی ارکان کے مطابق یہ حملہ صرف ان مقامات پر کیا گیا جہاں جوہری توانائی پر کام ہو رہا تھا یا جہاں ایران کے جوہری توانائی کے ذخیرے موجود تھے۔ امریکی بیانیہ کے مطابق امریکہ کو ایران سے جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بس ایجنڈا یہ ہی ہے کہ ایران کو نیوکلیئر بم بنانے سے روکا جا سکے اور یہ کارروائی اس ایجنڈے کا ایک حصہ ہے اور اس سلسلے میں عمل میں لائی گئی ہے کہ ایران کے جوہری توانائی کے ذخیرے کو ختم کیا جا سکے تاکہ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ امن عالم محفوظ رہ سکے۔
امریکہ کے اس حملے کی ہر طرف سے بھرپور مذمت کی گئی۔ داخلی اور بیرونی دونوں اطراف سے۔ باوجود اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھنے کے مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک نے امریکہ کے اس حملے کو اپنے لئے ایک خطرناک جنگی راستہ کھولنے سے تعبیر کیا۔ ایران اب تک اسرائیل کے حملے کے بعد جوابی کارروائیاں کر چکا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل کو یہ امید تھی کہ امریکہ جو ہمیشہ سے ان کا بہترین حلیف ہے اس معمالہ میں بھی اس کا مددگار رہے گا۔
امریکہ اور ایران کے مابین جوہری توانائی کے حصول پر تنازعات کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری رہا ہے۔ تاریخ کے مطابق ایران نے سب سے پہلے 1957ءمیں امریکی صدر آئیزن ہاور کے دور حکومت میں نیو کلیئر کارپوریشن پر دستخط کئے اس زمانے میں امریکہ تمام ممالک کو یہ تجویز دیتا نظر آتا تھا کہ انہیں امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لئے نیوکلیئر سائنس کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ 1967ءمیں ایران نے امریکہ کے تعاون سے ایک جوہری تحقیقی تجربہ گاہ قائم کی۔ 1973ءمیں رضا شاہ پہلوی نے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا اور اس پر بھرپور انداز میں کام شروع کروایا اس نظریہ کے ساتھ کہ ایران کو اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے جوہری طاقت کا حامل ہونا چاہئے اس کے علاوہ ایران کو اس عمل سے مشرقی وسطیٰ میں برتری حاصل ہو سکتی ہے اور یہیں سے امریکہ کو ایران کی طرف سے خطرے کے احساسات نے جکڑنا شروع کیا اور امریکہ کی طرف سے اس سلسلے میں پابندیوں کا آغاز ہوا جس کی رضا شاہ محمد پہلوی نے کھل کر مخالفت کی اور امریکہ درگزر کرتے ہوئے جرمنی اور فرانس کی معاونت سے 1975ءمیں اس پروگرام میں توسیع کی ابتداءکی۔ 1979ءمیں شاہ کی معزولی کے بعد اس پروگرام میں تعطل آگیا اور نئی اسلامی حکومت نے اسے ایک غیر ضروری اور ریاستی خزانے پر بوجھ سمجھتے ہوئے اسے روک دیا مگر 1988ءمیں عراق اور ایران کے درمیان ہونے والی جنگ نے ایرانیوں کو یہ باور کروایا کہ اگر ان کے پاس جوہری طاقت موجود رہی تو یہ ان کے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ ایران کی طرف سے ہمیشہ یہ یقین دہانی کروائی جاتی رہی کہ جوہری توانائی کا حصول وہ صرف اپنی حفاظت اور استحکام و سلامتی کے لئے چاہتا ہے اس کا جوہری بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں مگر امریکہ اور مغربی ممالک ہمیشہ اس پر مصر رہے کہ یقینی طور پر کسی وقت یہ جوہری توانائی ان کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔
کئی دہائیوں سے ایران پر کئی قسم کی پابندیاں عائد ہوتی رہی ہیں خاص کر اقتصادی طور پر ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکہ کا خصوصاً یہ ہی اصرار رہا ہے کہ ایران جوہری توانائی کے پروگرام کو ختم کردے۔ امریکی صدر بارک اوبامہ کے دور حکومت میں اس سلسلے میں ایران سے سنجیدہ مذاکرات کی ابتداءہوئی اور ایران اس پر رضا مند ہوا کہ اگر اس پر لگائی گئی پابندیوں میں کمی آسکتی ہے تو وہ اس پر رضا مند ہوگا کہ محققین کو اس کی تجربہ گاہوں کو معائنہ کی اجازت دے۔ 2015ءکے اس معاہدہ میں امریکہ کے علاوہ روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شامل ہوئے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت تھی مگر 2018ءمیں امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ نے اسے پہلے دور صدار میں یہ کہتے ہوئے اس معاہدے سے انحراف کیا کہ کچھ بہتر تجاویز پر مبنی معاہدہ ہونا چاہئے اور فی الوقت جب جون 2025ءکے وسط میں امریکہ اور ایران ایک بار پھر مذاکرات کا دور شروع کرنے والے تھے اسرائیل نے جوہری توانائی کو بنیاد بناتے ہوئے ایران پر حملہ کردیا۔ عالمی طور پر اسرائیل کے اس عمل کو ایک طرح سے ایران امریکی مفاہمتی امکانات کو اسرائیل نے اپنے لئے خطرہ تعبیر کرتے ہوئے یہ جارحانہ کارروائی کی۔ یہ بھی ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے جنگ میں ملوث ہونے کے سبب اسرائیل میں اب تھکن کے اشارے نظر آرہے ہیں۔ غزہ کی جنگ یں ملوث رہنے کے بعد اب اسرائیلی عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور نیتن یاہو کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں۔ اس لئے اسرائیل نے امریکہ کو براہ راست اس جنگ میں شامل ہونے پر اصرار کیا۔
ایرانی ذرائع کے مطابق امریکہ کا حملہ ایران کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکا جس کا دعویٰ امریکی ذرائع کررہے ہیں ۔ ایران نے کھل کر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحانہ کارروائی کے نتیجے میں ایرانی قوم مزید ثابت قدمی سے جوہری توانائی سے منسلک رہے گی اور اپنے مفادات اور سلامتی کا تحفظ کرے گی۔ اس کے لئے اسے کسی بھی قسم کی دشواریوں سے گزرنا پڑے۔
اس وقت جنگ بندی پر آمادہ ہونے کی ضرورت اسرائیل کو ہے۔ اسرائیل اور امریکہ پر یہ بھی آشکار ہو رہا ہے کہ اگر جنگ جاری رہی تو اس کا دائرہ وسیع ہونے کی صورت میں روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں بھی امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایران سے اتحاد کر سکتی ہیں۔ جس سے ایک انتہائی گھمبیر اور خوفناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ اس وقت ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر اس کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ایران مذاکرات کے لئے جنگ بندی کی شرائط رکھ چکا ہے۔ امریکی صدر جنگ بندی کی جانب سے پرامید ہیں۔ اب صورتحال کیا کروٹ لیتی ہے۔ دیکھنا ہوگا۔
148











