پاکستان کی موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ انسان جو گڑھا دوسروں کے لئے کھودتا ہے، ایک روز خود اس میں گرتا ہے، وقت کی رفتار بہت تیز ہے مگر وقت کا انصاف اور وقت کا وار بہت کاری ہوتا ہے، ہر گزشتہ 73 سالوں میں پاکستان کی بدمعاشیہ نے پاکستان بنانے والوں کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد جو گھناﺅنا کھیل شروع کیا تھا اور سازشوں کے ذریعہ جس طرح پاکستان کے حب الوطن لوگوں کو آہستہ آہستہ راستے سے ہٹایا اور بقیہ پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو کر بیرون ملک سدھار گئے مگر آج وہی تمام بدمعاشیہ جس میں پاکستانی فوج کے جنرلز، بیوروکریسی، عدلیہ کے ججز اور وہ بدمعاشیہ جنہیں ہم سیاستدان کہتے ہیں جن کے کتبہ ہم اپنے گلے میں ڈال کر گھومتے ہیں یا جن کی گاڑیوں کے آگے صرف ایک قیمہ نان کے نتیجہ میں بھنگڑے ڈالتے ہیں، اپنی موت آپ مرتے دکھائی دے رہے ہیں، خصوصاً پنجاب والوں نے جس طرح دیگر قوموں کا استحصال کیا اور آج تک کررہے ہیں، اس کا بدلہ چکانے کا وقت آن پہنچا ہے اور قدرت نے ان سب کو ایسے گرداب میں پھنسایا ہے کہ بلوچستان، کراچی، سندھ اور صوبہ سرحد میں عوام کو خون میں نہلانے والے آج بے یارومددگار نظر آرہے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ کسی مظلوم کی فریاد نے ان کے سامنے عمران خان کی صورت میں ایک اژدھا کھڑا کردیا ہے جس سے ملک کی پوری بدمعاشیہ مل کر بھی نمٹ نہیں پا رہی ہے اور اس قدر خوفزدہ ہے کہ کسی نہ کسی طور اس وقت کو نکال کر اور عمران خان کو راستے سے ہٹا کر ملک میں دوبارہ اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے آخری جنگ لڑ رہی ہے مگر قدرت کا انتقام شاید اب ان کا مقدر بن چکا ہے۔
یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ قدرت ایسے حالات سے دوچار کر دیتی ہے کہ انسان خود اپنے ہاتھوں سے اپنا منہ اور اپنے بال نوچنا شروع کر دیتا ہے۔ آپ اگر غور کریں تو اس وقت آپ کو ملک میں یہی صورتحال نظر آئے گی۔ اس بدمعاشیہ نے جسے میں جرنیلوں سیاستدانوں، ججوں، بیورو کریسی کا پیکیج کہوں گا اپنی غلط کاریوں سے ملک کو آج تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ اس جرم میں وہ تو شریک ہیں ہی جنہوں نے براہ راست سازشیں کیں بلکہ وہ لوگ بھی برابر کے مجرم ہیں جنہوں نے اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ ملک میں اقربا پروری، زبان، رنگ اور نسل کی بنیادوں پر اس قدر نا انصافی آج تک جاری ہے کہ جس نے اہلیت کو پس پشت ڈال دیا اور اپنے من پسند افراد کو آگے لانے کے لئے خوشامدیوں کی ایسی فوج تیار کی کہ جو ملک کے ہر ادارے کے اہم عہدوں پر براجمان ہے۔ یہ تمام ذہنی طور پر معذور لوگ ملک کا نظم و نسق چلا رہے ہیں اور نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور علم رکھنے والے افراد کو اس قدر ذلت سے دوچار کیا گیا کہ وہ یا تو گھر بیٹھ گئے یا پھر ملک چھوڑ گئے اور آہستہ آہستہ پاکستان چور، اچکوں کی آماجگاہ بن گیا۔ کرپٹ ملا مافیا، کرپٹ ججز کا ٹولہ، کرپٹ حکمران اور کرپٹ جنرل اور سیاستدان ملک کے ٹھیکیدار بن بیٹھے۔ یوں ذاتی لالچ کو حرص کے عوض پورے ملک کے عوام کو بھکاری بنا کر رکھ دیا۔ آج تو حد یہ ہو گئی کہ اب کوئی ملک بھیک دینے کو بھی تیار نہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں بے شمار معدنیات کے ذخیرے ہوں، جہاں چاروں موسم ہوں، جہاں ہر صوبہ زراعت کی دولت سے مالا مال ہو۔ جہاں اگر ایمانداری اور انصاف سے فیصلے کئے جاتے تو آج پاکستان میں صنعتوں کا انقلاب آتا اور پوری دنیا میں اپنی مصنوعات فروخت کررہا ہوتا مگر ایک گہری سازش کے تحت ایسے افراد کا چناﺅ کیا گیا جو ذاتی مفادات کی بھٹی میں جل کر اس قدر پکے ہو چکے ہیں کہ اب انہیں نہ ملک کا مفاد نظر آرہا ہے اور نہ اپنے عوام کی حالت زار۔ نعرہ تو عوام کا لگاتے ہیں فائدہ ملک میں بیٹھے چند خاندان اٹھاتے ہیں مگر اب نظر آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آچکی ہے اور وہ وقت دور نہیں کہ جب اس بدمعاشیہ ٹولے کو کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور قوم کا جوتا ہو گا اور ان کا سر۔
آج کا پاکستان اپنی بقاءکی آخری جنگ لڑ رہا ہے اور اب یا تو عوام کو تخت ملے گا یا پھر تختہ جس پر بیٹھ کر ہماری اگلی نسل آئندہ آنے والے طوفانوں سے دست و گریباں رہے گی اور یہی چند خاندان جن میں فوجی جنرنلز، جج، سیاستدان اور بیوروکریٹ شامل ہیں، ملک کو اپنی جاگیر میں تبدیل کردیں گے اور آئندہ پاکستان صرف اور صرف ان کے مفادات کا تحفظ کرتا رہے گا اور پوری قوم دو حصوں میں بٹ جائے گی۔ غریب عوام اور بدمعاشیہ، پھر کوئی سر اٹھانے کی جسارت نہیں کرسکے گا کہ موجودہ حالات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کرپٹ ٹولہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کس طرح آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔
آئیے مل جل کر عاجزی اور انکساری سے اپنے پروردگار کے آگے دوزانو ہو جائیں اور اللہ رب العزت سے اپنی آنے والی نسل کی آزادی کی ضمانت مانگ لیں کہ وہی ہے جو ہر شہ پر قادر ہے اور وہی ہے جس نے اگر ”کن“ کہہ دیا تو پھر
سب تخت گرائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
تم اہل وفا، مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
جب ظلم و ستم کہ کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
بس نام رہے گا اللہ کا
261











