Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
پامالیِ دستور 94

بردباری ۔ ضرورت وقت

پاکستان اس وقت چہار اطراف سے ایسے حالات میں گھرا ہوا نظر آرہا ہے جو نہ صرف اس کی داخلی بلکہ بیرونی اور خارجی حیثیت کو عالمی سطح پر ایک ایسے تناظر میں کھڑا کررہی ہے جو کسی بھی سیاست کے لئے انتہائی مخدوش ثابت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ مئی میں بھارت سے ہونے والی جھڑپ کے بعد جو مضبوط دفاعی صلاحیت پاکستان کی سامنے آئی تھی اور جس کی وجہ سے اقوام عالم میں پاکستان کو عزت و وقار حاصل ہوا وہ موجودہ حالات کے سبب پس پشت جاتی نظر آرہی ہے۔ فلسطین سے متعلق تمام مرحلوں میں پاکستان کو جس طرح سے ایک نمایاں مقام دیا گیا اس نے یقینی طور پر پاکستانیوں کو ایک فخریہ احساس سے دوچار کیا۔ پاکستان اقوام عالم کے درمیان ایک امتیازی حیثیت سے گردانا گیا اور تمام اندرونی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان ایک قوم کی طرح متحد ہوا، خصوصی طور پر امریکی صدر کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کو سراہا گیا جس نے جہاں پاکستانیوں کو اطمینان سے دوچار کیا وہیں اس تمام سے منسلک واقعات اور تفصیلات نے بے تحاشہ ابہام اور فکر کے دروازے بھی کھول دیئے۔ فیلڈ مارشل کے وہائٹ ہاﺅس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ لنچ سے لے کر وزیر اعظم پاکستان کی قطر میں امریکی صدر کی مدح سرائی جس نے پاکستانیوں کو شدید خفت سے دوچار کیا کی تفصیلات مزید سامنے آرہی ہیں اور اس خوف نے پَر پھیلانے شروع کر دیئے ہیں کہ کیا ایک دفعہ پھر پاکسان دام امریکہ کی گرفت میں آچکا ہے، کیا پھر ناعاقبت اندیش حکمران ذاتی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست پاکستان کا سودا کرنے پر تیار ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان پچھلی دہائیوں میں جس طرح نقصانات اٹھا چکا ہے وہ کوئی عرصہ دراز کی دستان نہیں بلکہ ماضی قریب کا ہی قصہ ہے۔ امریکی قربتوں کے سلسلے عموماً پاکستان کے لئے بہت سازگار نہیں رہے سوال یہ ہے کہ موجودہ صاحبان اقتدار نے ان قربتوں کا جواب کس صورت میں دینے کی حامی بھرلی ہے۔ صوبہ پنجاب میں شاہراﺅں پر لگے بینر جن میں صدر ٹرمپ کی تصویر کے ساتھ ابراہم اکارڈ کی تشہیر کی جارہی ہے، بہت کچھ ظاہر کررہی ہے، کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے، کیا پاکستانیوں کو ذہنی طور پر اس امر کے لئے تیار کیا جارہا ہے، کیا اس فیصلے میں 25 کروڑ پاکستانیوں کو شامل کرنے کا ارادہ کیا جائے گا۔ یا یہ فیصلہ صرف اکابرین حکومت ہی انجام دینے کا عزم کر چکے، پچھلے 78 سالوں میں پاکستان کی تمام حکومتیں اس عزم کا اعادہ کرتی رہی ہیں کہ قائد اعظم کے نظریہ کو زندہ رکھتے ہوئے فلسطین کو ہمیشہ ایک آزاد ریست کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، وہاں کوئی دو ریاستی تصور منے نہیں آیا، پچھلی کچھ حکومتوں نے بیرونی دباﺅ کے زیر اثر اس سلسلے میںکچھ اقدام اٹھانے کی کوشش کی کہ اسرائیل کو ایک حیثیت دیدی جائے مگر اسے عملی جامعہ نہیں پہنچایا جا سکا، فی الوقت ظاہر یہ ہو رہا ہے کہ اس بنیادی نظریہ کے منافی اور پاکستانی عوام کی خواہش اور رضا کے برخلاف اس طرف قدم بڑھانے کی ابتداءکردی گئی ہے اگر فلسطین کی مدد کا سہارا لے کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی کی گئی تو پاکستانی قوم اس پر یقینی طور پر ایک شدید ردعمل کا اظہار کرے گی جس سے نہ صرف پوری قوم کا ستحقاق بے طرح مجروح ہو گا بلکہ پاکستان کے وقار کو انتہائی دھچکہ لگے گا اور اس کے شدید نقصانات سامنے آئیں گے۔
اس وقت جب فلسطین کے معاملات کافی کچھ طے ہوتے نظر آرہے، جنگ بندی کا آغاز ہو چکا ہے، حالات میں بہتری کی صورت نظر آرہی ہے، ایسے وقت میں تحریک لبیک کا احتجاج کیونکر شروع ہوا ہے، تحریک لبیک نے گزشتہ دو سالوں میں اس ہولناک جنگ کو اور فلسطینیوں کی ابتر حالت کو قابل توجہ کیوں نہیں سمجھا اور اس مرحلہ پر احتجاج کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ اس کے علاوہ ایک سادہ احتجاج جس کا تحریک لبیک نے اعلان کیا پر حکومت کی طرف جارحانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا یہ رویہ بہت ساری پیچیدگیوں کی طرف اشارے کررہا ہے۔ کیا اس وقت تحریک لبیک کو استعمال کیا گیا ہے، کیا یہ سب کسی طاقت کے ایما پر انجام پایا ہے، کیا پاکستانی حکومت کو مذہبی جماعتوں کا سہارا لے کر کسی اور طرف پیغام دینا مقصود ہے، یہ جماعت کو کچھ عرصہ قبل ممنوع قرار دی جاچکی تھی پھر اسے واپس کا راستہ کن بنیادوں پر مہیا کیا گیا اور اب اس پر بہیمانہ تشدد کے بعد اسے ایک دہشت گرد جماعت قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی حکمت عملی کیوں اپنائی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پنجاب حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سے متعلق تمام تفصیلات سامنے لائے ورنہ خود اس کے لئے بھی اس واقعے سے نقصان دہ نتائج سامنے آسکتے ہیں جس کا خمیازہ اسے اٹھانا پڑ جائے گا۔
ابھی کشمیر کے مسائل ہی مکمل طور پر حل نہیں ہوئے کہ افغانستان سے جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی غور طلب معاملہ ہے کہ یہ سارے داخلی اور بیرونی واقعات ایسے وقت میں کیوں رونما ہونے شروع ہو گئے ہیں جب کہ پاکستان اس خیال میں ہے کہ اس کے تعلقات عاطمی طور پر بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ پاکستان سے عالمی طاقتیں کیا توقعات باندھ رہی ہیں مگر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اس وقت پاکستان ہر طرف سے ایسی پوزیشن میں کیوں گھیرا جا رہا ہے جہاں وہ ایک مکمل بے دست و پا ریاست کی شکل میں نظر آئے۔ حکومت پاکسان نے کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان سے مذاکرات پر رضا مندی کرتے ہوئے جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط کر دیئے۔ بہت ممکن ہے اس میں قطری حکومت اور سعودی عرب کے ثالثوں نے اہم کردار ادا کیا ہو۔ ورنہ پاکستانی حکومتی اکابرین جس طور سے افغانستان سے متعلق اظہار خیال میں مصروف تھے وہ صرف معاملات کو سنگینی کی طرف لے جا سکتے تھے۔
کے پی کے کی پچھلی حکومت اور حالیہ وزیر اعلیٰ مستقل مذاکرات پر زور دے رہے تھے مگر وفاقی حکومت کی جانب سے اس پر ایک مکمل برعکس ردعمل سامنے آتا رہا اس صوبے نے دہشت گردی کے بے شمار زخم کھائے ہیں اور وہ حق بجانب ہیں اس مطالبہ پر کہ دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے لائحہ عمل کو طے کرنے میں وہاں کے عوام اور قبائل کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خیبرپختونخوا کے نئے وزیر اعلیٰ بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے سے قبل اور اب تک منفی بیانات کا سلسلہ جاری ہے ان کے ناتجربہ کار ہونے کا ہنگامہ ہے۔ نئے وزیر اعلیٰ نے جو اعلانات اپنی نئی حکومت کے لائحہ عمل کے سلسلے میں کئے ہیں وہ ایک جمہوری طرز حکومت کے لئے تو مناسبت ہو سکتے ہیں مگر ایک ایسا نظام جس میں لاقانونیت سرائیت کر چکی ہو کے لئے ایک چیلنج ہی قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ قبائلی علاقاجات سے تعلق رکھتے ہیں جس سے یقینی طور پر قبائل میں حکومت میں شامل ہونے کا احساس ابھر کر سامنے آیا ہے جو پچھلی کئی دہائیوں میں پیدا نہ ہو سکا اس سے کے پی میں انتظامی امور کی انجام دہی میں انتہائی آسانیاں پیدا ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت سے اس نئے وزیر اعلیٰ اور حکومت کے تعلقات کیسے رہیں گے اس کا انحصار وفاقی حکومت کے رویہ پر ہو گا۔ اگر وفاقی حکومت امن و امان کے مسائل اور دہشت گدی سے نپٹنے کے لئے سنجیدہ ہوئی تو اسے یقینی طور پر کے پی سے روابط قائم کرنے میں بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ورنہ تمام ندرونی اور بیرونی معاہدوں کے باوجود حالات میں بہتری کی کوئی صورت نہیں نکل سکے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں