Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 175

جج صاحب کو عزت افزائی مبارک ہو؟

لندن میں ایک پاکستانی جج کی جس طرح سے اوورسیز پاکستانیوں نے عزت افزائی کی ہے وہ ان کے ایک سچے اور محب الوطن پاکستانی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ان کا اس طرح کا طرز عمل یہ بھی ثابت کررہا ہے کہ وہ پاکستان میں کس طرح کے انصاف کے نظام کو دیکھنا چاہتے ہیں ایک اس طرح کا نظام انصاف جو ہر طرح کی مداخلتوں سے پاک و صاف ہو جہاں کے ججز فیصلے دوسروں کی خوشنودیوں اور ان کے خواہشات کے تکمیل کے لئے نہ کریں اور نہ ہی انصاف کو ایک بکاﺅ مال بنا کر اس کے اصل ضرورت مندوں کی پہنچ سے اسے دور کرنے کا باعث بنے پاکستان سے آئے ہوئے اس جج کے ساتھ جس طرح کا سلوک اوورسیز پاکستانیوں نے کہا گرچہ جج کا منصب کسی بھی طرح سے اس کا متقاضی نہیں مگر جو شخصیت اس پر براجمان ہے، محب الوطن پاکستانیوں نے دراصل ان کے کردار کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے ایک جج ہو کر کس طرح سے خود انصاف کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا فریضہ سر انجام دیا، انصاف کو سرعام رسوا کرنے کے بعد کیا منہ لے کر وہ ایک انصاف پسند معاشرے ہیں آئے ہیں اور کس حیثیت سے وہ لاءکے اسٹوڈنٹس کو وہ ایڈریس کر سکیں گے، کیا وہ انہیں اس طرح کی خواہشات میں لپٹے فرمائشی فیصلے کرنے کے طور طریقے سکھلائیں گے۔ پچھلے چند سالوں سے اوورسیز پاکستانیوں نے پاکستان سے آنے والے سرکاری اور سیاسی لیڈروں کو آئینہ دکھانے کا ایک درست طریقہ اپنایا ہے کیونکہ پاکستان میں تو ان ہی لوگوں کی بالواسطہ یا پھر براہ راست حکمرانی ہے اس لئے وہاں کے عوام میں ان کے خلاف کچھ بھی کہنے کی کوئی ہمت و جرات نہیں مگر پاکستان سے باہر یہ پاکستانی شیر گیدڑ بن جاتے ہیں اور دم دبائے چوروں کی طرح سے نظریں ملائیے بغیر گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے پاس رہنے والے گوروں کو بھی چور ہے، چور ہے، گوالمنڈی کا چور ہے کہ نعرے اچھی طرح سے یاد ہو گئے ہیں، کوئی صوبائی یا وفاقی وزیر ہو یا کوئی پولیس افسر بیوروکریٹ، ججز وغیرہ، سب کی بیرون ملک ان کے کارناموں کے لحاظ سے ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ ڈاکو ارب پتی اینکرز پرسن بھی اسی طرح سے اپنی عزت افزائی کرتے ہوئے پائیں گے، وقت بدل چکا ہے، لوگوں میں شعور اور ہمت آگئی ہے، وہ اب ڈاکو کو ڈاکو اور چور کو چور اور غدار کو غدار کہنے کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ اللہ کے فضل و کرم سے خوف کا بت ٹوٹ چکا ہے، اس طرح کی دیدہ دلیری اور جرات کرنے والوں کو ہی پاکستان کے یہ سیاستدان برا بھلا کہتے ہیں کہ وہ غلط کرتے ہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے حالانکہ اوورسیز پاکستانی کوئی غلط کام نہیں کرتے وہ تو ان چوروں اور لٹیروں کو آئینہ دکھا کر ان کے ضمیر کو بیدار کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ جو غلط کررہے ہیں وہ اس سے باز آجائے، آج پاکستان میں عالم اسلام کا مقدمہ لڑنے والے مرد مومن مجاہد عمران خان کو سزا دے کر پابند سلاسل کردیا۔
اس ایک کارروائی سے پاکستان عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں کس طرح کا پیغام بھجوا رہا ہوں، یعنی وہ کام جسے کفار کو سر انجام دینا چاہئے تھا وہی کام خود مسلمانوں سے کروایا گیا، پاکستان کے عدالتی نظام اور ان کی پارلیمنٹ کی تباہی وہ بربادی کا اندازہ لگائیں کے اربوں کے فراڈ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے باہر اور ملک کو ترقی کی راہ پر دوڑانے والا اندر، پاکستان میں اچھے اور برے کے فرق کو مٹا دیا گیا۔ ظالم کون اور مظلوم کون۔۔۔؟ یہ جاننا مشکل ہو گیا ہے، یہاں محب الوطنوں اور غداروں کے فرق کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ جنگل کا قانون ہے، جس کے پاس لاٹھی ہے وہی محب الوطن ہے، وہی پاک صاف اور فرشتہ ہے، وہی قانون سے بالاتر ہے اور وہی سب پر حکمرانی کرنے کا مجاز ہے، کیونکہ اس کے پاس لاٹھی ہے، لاٹھی والا ہی باقی تمام کو جانور سجھتے ہوئے لاٹھی کی زبان میں ان سے ہم کلام ہے۔ یہ ہی پاکستان کا المیہ ہے اور پاکستان پر حکمرانی کرنے والے اسی طرح کے لوگوں کے کبھی کبھار لندن، کینیڈا یا پھر فرانس اور امریکہ آنے پر اوورسیز پاکستانی ان کی مزاج پرسی کرتے ہیں تو وہ خفا ہو جاتے ہیں۔ عورتوں کی طرح سے چہرہ چھپائے بھاگ جاتے ہیں، جس طرح سے گزشتہ روز پاکستان سے آنے والے جج کو چوروں کی طرح سے بھاگنا پڑا لیکن کب تک۔۔۔؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں