Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
زرداری کی چھٹی۔۔۔؟ 213

جشن + آزادی + عوام

جوتوں میں دال بٹنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، لگتا ہے ہنی مون پریڈ ختم ہونے جارہا ہے اس لئے اب اصل حکمرانوں کو ان پرانے تابوتوں عوام کے دھتکارے ہوئے قومی خزانہ لوٹنے والے سیاستدانوں کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی اپنے سابقہ اصل حکمرانوں کی تقلید کرتے ہوئے یہ اب اپنی ہی نئی پراڈکٹ ایک نئی سیاسی پارٹی میدان میں اتارنا چاہتے ہیں اس کے لئے راستے کے تمام کانٹوں کو نکالنے کے لئے عدالتی جھاڑو چلانے کا سلسلہ شروع کردیا ان کی نظر میں سارے کے سارے سیاسی کچرے کو بڑے کوڑے دان زندان میں ڈالا جارہا ہے تاکہ ان کے اس کارخیر میں کسی طرح کی کوئی مزاحمت یا پھر تکلیف نہ ہو، یہ نیک خیالات ہیں بدقسمت پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کے۔۔۔ جنہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ وطن عزیز کی 78 ویں سالگرہ ہے یعنی 78 برس کا پاکستان ہو گیا مگر ابھی تک اس میں پختگی نہیں آئی۔
یقین کریں کہ اس 78 ویں سالگرہ کا یا تو کسی کو علم ہی نہیں یا پھر کسی کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہ رہی اس وجہ سے کسی محلے گلی پر جھنڈے نظر نہیں آئے اور نہ ہی ملی نغموں کی گونج سنائی دے رہی ہے اب یہ جھنڈے یہ ملی نغمے صرف اور صرف سرکاری عمارتوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے۔ ملکی عوام کا اس سے لگتا ہے تعلق ختم ہو گیا اس کی کیا وجہ ہے؟ سمجھ سے باہر ہے یہ ہماری آزادی کا دن ہے اس روز ہم بیک وقت فرنگیوں اور ہندوﺅں دونوں سے آزاد ہوئے تھے اور دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا تھا لہذا 14 اگست کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے جوش و جذبے کے ساتھ منانے کی ضرورت ہے اور اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اب جشن آزادی صرف سرکاری عمارتوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آپس کے اختلافات کو اس طرح کے ملکی معاملات پر ترجیح دینے سے گریز کرنا چاہئے ورنہ ملک دشمنوں کو موقع مل جائے گا۔ پاکستانی قوم کو مزید تقسیم در تقسیم کرنے کے لئے۔۔۔ اس طرح سے ملکی عوام کے ساتھ ان پر جمہوری یا پھر غیر جمہوری طریقے سے حکمرانی کرنے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ آخر ملکی عوام اتنی زیادہ بدظن کیوں ہو گئی کہ اب انہوں نے یوم آزادی کے تقریبات سے بھی منہ موڑ لیا ہے حالانکہ اس طرح کے یادگار لمحے تو ملکی عوام میں یکجہتی اور حب الوطنی کے جذبات کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں لیکن ایسا کیا ہوا کہ ملکی عوام نے اتنے اہم ترین ملک کے آزادی کے اس دن کو منانے سے ہی ایک طرح سے بطور احتجاج انکار کر دیا ہے ابھی ایسا بھی نہیں کہ ان سب کو ہی غدار کہہ دیا جائے کیونکہ وہ ایک دو تو ہے نہیں وہ تو لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہیں ان سب کو ماسوائے گلے لگانے کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے ان کے تحفظات کو دور کرنے کی اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے یہ جو اب نئے سے نئے تجربے کرتے ہوئے نئی سیاسی پارٹی بنائی جارہی ہے۔
یہ تجربہ نہ تو پچھلے غاصب حکمرانوں کا کامیاب ہوا تھا اور نہ ہی یہ اب کامیاب ہوسکتا ہے کیونکہ جو نئی پارٹی بنوائی جارہی ہے اس میں سیاستدانوں کو کہاں سے آسمان سے اتار کر لائیں گے؟ وہ کیا دودھ کے دھلے ہوئے ہوں گے یقیناً ان ہی سیاسی پارٹیوں کو باغیوں کو اکھٹا کرکے ان کا ایک گلدستہ بنانے کی کوشش کریں گے ایک نئے نام کے ساتھ۔۔۔
یعنی پرانی شراب نئی بوتل اس سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ملک کو جس طرح کے مسائل نے گھیرا ہوا ہے اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ملکی عوام کو ناراض کرکے ان سے دوریاں اور نفرتیں پیدا کرکے کوئی بھی حکومت نہیں چل سکتی ہے چاہے ان کا حاکم کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو؟ انہیں امریکہ جیسے زمینی خداﺅں کی کتنی ہی حمایت کیوں نہ حاصل ہو طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف عوام ہے ادارے نہیں، ایران کا انقلاب سب کو یاد ہے کہ امریکہ کی سب سے زیادہ حمایت یافتہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا کس طرح سے خاتمہ ہوا اور ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ بھی عوامی انقلاب کی وجہ سے آیا اس لئے ملکی عوام کو نظر انداز کرکے ان پر حکومت کرنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔۔۔ اس لئے حکمرانوں کو چاہئے جتنی جلد ہی ہو سکے ملکی عوام کے شکایتوں کو دور کریں ان کے تحفظات ختم کریں تب ہر روز ملک میں جشن آزادی ہو گی اس کے لئے ملکی عوام کو حقیقی طور پر آزادی دینا ہوگی اپنی پولیس کے ذریعے ان کی آزادی سلب کرنے کا سلسلہ بند کرنا پڑے گا ورنہ پھر جشن آزادی کی تقریبات کو ضرور سرکاری عمارتوں سے آگے کسی کا باپ بھی نہیں بڑھا سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں