Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
زرداری کی چھٹی۔۔۔؟ 52

جمہوریت اور جرم کا گٹھ جوڑ؟

پاکستان کی موجودہ غیر قانونی حکومت نے جمہوریت کے بے توقیری کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے ریاست پاکستان کو پوری دنیا میں رسوا کردیا اور ایک تماشہ بنا دیا کہ پاکستان میں جمہوریت کے ذریعے کس کس طرح کی انوکھی قانون سازیاں کرکے خود جمہوریت کے ہاتھوں قانون اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے۔ تاحیات فوجداری مقدمات میں استثنیٰ دیئے جانے کی کوئی نظر نہ تو دور حاضر کی اس جمہوری تاریخ میں موجود ہے اور نہ ہی ماضی میں اس طرح کی کوئی مثال ہے یہاں تک کہ تاریخ کے حقیقی اور اصل ہیروز خالد بن ولید ہو یا پھر سلطان صلاح الدین ایوبی انہیں بھی اس طرح کا کوئی استثنیٰ حاصل نہیں تھا وہ بھی اپنے اپنے اعمال کے لئے جوابدہ تھے۔ یہ تو پاکستانی جمہوریت کا کمال ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو بھی استثنیٰ کے لئے اہل کردیا ہے جو سر کے بالوں سے لے کر پیر کے ناخنوں تک رشوت سمیت ہر طرح کے جرائم میں ڈوبے ہوئے ہیں انہیں شاید ان کے سابقہ شاندار ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے فوجداری مقدمات سے استثنیٰ دیدیا ہے ایک طرح سے انہیں یہ اعزاز یا پھر انعام دیا گیا ہے کہ وہ زندگی کے آخری سانسوں تک سرزمین پاکستان میں کسی بھی طرح کا کوئی جرم یا پھر گناہ کرے پاکستان کی کوئی پولیس ان کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہو گی اور نہ ہی پاکستان کی کوئی عدالت انہیں طلب کرنے کی کوئی گستاخی کر سکے گی کیونکہ انہیں اس آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے اور وہ قائد اعظم کے اس بدنصیب پاکستان کے صدر مملکت ہیں ۔ اندازہ لگائیں پاکستان کی اس ڈالڈا اور دو نمبری جمہوریت کا۔۔۔ جس کی وجہ سے عالمی دنیا میں جمہوری روایات اور پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا۔ اس دو نمبری سے دنیا والوں پر پاکستانی جمہوریت کی اصلیت اور سیاستدانوں کے کالے کرتوت واضح ہو گئے کہ پاکستانی سیاستدانوں کا کردار کیا ہے۔ وزیر اعظم ہو یا پھر ملک کا صدر یہ دونوں آئینی عہدے سے بہت بڑے عہدے ہوتے ہیں اور ان پر براجمان شخصیات ملکی عوام کے لئے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں اب صدر مملکت کو فوجداری مقدمات کے حوالے سے تا حیات استثنیٰ دیئے جانے سے کس طرح کا پیغام قوم کو دیا گیا ہے کہ ان کا صدر مملکت عدالتوں کا سامنا کرنے سے کیوں گھبرا رہا ہے؟ کیوں کترا رہا ہے؟ آخر انہوں نے ایسا کیا کیا ہے؟ جس کی وجہ سے انہیں تاحیات فوجداری مقدمات سے بچنے کے لئے قانونی اور آئینی طور پر استثنیٰ کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ کیا انہیں جرم کرنے کی عادت ہو گئی ہے انہیں رشوت کا مرض لاحق ہو گیا ہے وہ رشوت لئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے یا پھر دوسرے جرائم کی انہیں لت پڑ چکی ہے جس سے بچنے کے لئے انہیں اس آئینی ڈھال کی ضرورت پیش آئی ہے پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے اس لئے صدر مملکت کا عہدہ ایک نمائشی یا پھر علامتی عہدہ بن چکا ہے خاص طور سے 18 ویں ترمیم کے بعد سے آرٹیکل 58 B کے خاتمے کے بعد صدر کی حیثیت ایک ایسے سانپ والی بن گئی ہے جس میں زہر نہ ہو یعنی وہ اب کسی کو ڈسنے کے قابل نہیں۔ لیکن اب 27 ویں ترمیم کے بعد صدر کا عہدہ ایک بار پھر وزیر اعظم کے عہدے پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہو گیا اب پاکستانی سیاست کے حرام خور کرداروں کی نظریں اس وقت صدارتی عہدے پر جم گئی ہے ہر کسی کے منہ سے رال ٹپک رہی ہے ہر حرام خور سیاستدان اپنے گناہ دھلوانے کے لئے ایوان صدر کی یاترا یا پھر طواف کرنے کے لئے بے چین اور بے تاب دکھائی دے رہا ہے۔ طویل نہ سہی مختصر عرصے کے لئے ہر کوئی صدر بننے کا خواہش مند ہو گیا ہے تاکہ ان کے نام کے آگے بھی صدر پاکستان کا اضافہ ہو جائے اور قانون ان کی زندگی سے بھی نکل جائے اب نواز شریف ہو یا شہباز شریف یا پھر اسحاق ڈار ہو یا پھر مولانا فضل الرحمن ہر کوئی صدر مملکت بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں یہ پاکستانی جمہوریت کا حسن ہے جو جمہور سے زیادہ اپنے بنانے والوں کی وفادار ہے اس طرح سے پاکستانی جمہوریت ایک مذاق بن کر آمریت کو چیلنج کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستانی سیاست کی اس سے زیادہ گری ہوئی حالت اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہ ہی صورتحال عوامی انقلاب کے لئے راہیں ہموار کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو قائم و دائم رکھے اور دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنائیں، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں