اسرائیل اور ایران جنگ کا فی الحال ڈراپ سین ہو گیا اور دنیا ایک اور بڑی اور آخری فیصلہ کن ایٹمی جنگ کی زد میں آنے سے بچ گئی کیا یہ جنگ بندی کسی بہت بڑی حکمت عملی کا نتیجہ ہے یا کہ بزدلی کا؟ اور کیا امریکی صدر واقعی امن کے داعی ہیں اور پاکستان کی جانب سے نوبل پرائز کے لئے جو ان کی نامزدگی کی گئی ہے وہ اس کے اہل ہیں انہیں یہ نوبل پرائز ملنا چاہئے۔ قارئین یہ لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی ضرورت مجھے اس لئے محسوس ہوئی کہ اس وقت عالمی سیاست میں بہت ہی تیزی کے ساتھ اتار چڑھاﺅ آرہا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا، کسی لکھے گئے اسکرپٹ کے تحت ہی یہ سارے واقعات ایک کے بعد ایک رونما ہو رہے ہیں۔ کچھ بھی اچانک سے یا پھر حادثاتی طور پر رونما نہیں ہوا۔ معلوم نہیں یہ کس طرح کی جرائم اور دہشت گردی میں لپٹی ہوئی سیاست جمہوریت کے بینر تلے کی جارہی ہے، ہر کام ہی قانون کا گلا گھونٹنے کے بعد ہی کیا جارہا ہے، اجارہ داری کے کشمکش میں طاقت ور قانون کو ہی مظلوموں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کی عمارت اور اس کے تمام تر عالمی فائدے اور قانون علامتی بن کر رہ گئے ہیں۔ دنیا میں اس وقت صرف اور صرف جنگل کا قانون رائج ہے۔ اسرائیل کے لئے سپرپاور کے کچھ اور پیمانے ہیں اور باقی ملکوں کے لئے کچھ اور۔۔۔
اسرائیل نے عالمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرکے اس کی خودمختاری کو روند ڈالا۔ وہ جنگی جرم کا مرتکب ہوا، امریکہ نے اسے ڈانٹنے کے بجائے اسے تھپکیاں دی اور اسرائیل کے ادھورے کام کو خود ایران پر حملہ کرکے مکمل کیا اور اس کے بعد جب ایران نے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کئے تو اس پر سپر پاور نے دوبارہ سے ایران کو دھمکیاں دینا شروع کردی۔ یہ بدمعاشی اور کھلی غنڈہ گردی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔۔۔؟ اسے کون روکے گا۔۔۔؟ اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار بنانے، استعمال کرنے اور رکھنے کی اجازت ہے اور اگر ایران اپنے دفاع کے لئے یہ سب کچھ کرتا ہے یہ اس کا ناقابل تلافی جرم اور گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ کس طرح کی غنڈہ سیاست ہے۔ اس پر عالم اسلام کا خاموش رہنا مجرموں کی حوصلہ افزائی اور ان کا حامی ہونے کے مترادف ہے، اسی طرح سے عراق کو کمیاوی بم بنانے کی ایک جھوٹی اور بے بنیاد خبر پر امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے ہی تباہ کرکے لاکھوں مسلمانوں کو بے موت مار چکے ہیں اور اب ایران پر بھی وہی فارمولہ استعمال کرنے لگے تھے۔
ایرانی ایک بہادر قوم ہے جو پہلے ہی ایران سے رضا شاہ پہلوی جیسی اسلام دشمن بادشاہت کا خاتمہ کرکے اپنے انقلاب کی ایک تاریخ رقم کرچکے ہیں۔ جنہیں شکست دینا نہ تو امریکہ کے بس میں ہے اور نہ ہی اس کے ناجائز اولاد کے۔۔۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہاتھ جوڑ کر انہیں یہ جنگ رکوانا پڑی۔ اس سارے خونی کھیل میں ایران پر یہ تو واضح ہو گیا کہ کون ان کا اپنا ہے اور کون پرایا ہے۔۔۔؟ کن پڑوسیوں سے کس طرح کے تعلقات رکھنے ہیں اس کا علم انہیں اب اچھی طرح سے ہو گیا ہے، اب ان خونی واقعات میں امریکی صدر کا نوبل پرائز کہاں فٹ ہوتا ہے، انہوں نے کونسا ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ انہیں نوبل پرائز دیا جائے۔ ایران پر حملہ کرکے اپنی کانگریس سے کسی کی اجازت نہ لے کر اور اس حملے کی صورت میں عالمی قانون کی صریحاً خلاف ورزی کرنا ہی اگر ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور اس پر ان کے نوبل پرائز کے لئے پاکستان نے ان کی نامزدگی کی ہے تو اس سے بڑا اور کیا مذاق امن کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اس طرح سے نوبل پرائز دینے سے امن اور بدامنی کا فرق ختم ہو کر رہ جائے گا اور اگر پاکستان نے امریکی صدر کو نوبل پرائز کے لئے اس لئے نامزد کیا ہے کہ امریکی صدر کی مداخلت کی وجہ سے پاک بھارت جنگ آگے نہ بڑھ سکی اور جنگ ختم ہو گئی تو یہ بھی بہت بڑا مذاق ہو گا۔ سب جانتے ہیں کہ جنگ بندی کس طرح سے ہوئی۔ امریکہ بھارت پر دباﺅ ڈال کر پاکستان کا بند پانی تو کھلوا نہ سکے تو وہ جنگ کس طرح سے رکوا سکتے ہیں اور بھارت کب امریکہ کو خاطر میں لاتا ہے۔۔۔؟ اس لئے نوبل پرائز کے لئے امریکی صدر کے نام کی نامزدگی ایک چاپلوسی اور خوشامد کے سوا کچھ نہیں بلکہ امن کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے جس سے پاکستان کو خود کو الگ کرنے کی ضرورت ہے۔
