پاکستان اس وقت جس شاہراہ پر چل رہا ہے یا جسے اس پر دوڑایا جا رہا ہے اس کی اگلی منزل کیا ہے۔۔۔؟ کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ایک اس طرح کی گاڑی ہے جو بغیر کسی ڈرائیور کے چل رہی ہے یا پھر وہ اس طرح کی بادبانی کشتی بن گئی ہے جس کا سفر جس کی منزل ہواﺅں کے رحم و کرم سے جس طرف کی ہوائیں چلے گیں، کشتی یعنی پاکستان اسی طرف چلے گا، ملک پوری طرح سے غیر یقینی صورتحال اور کیفیات کے نہ ختم ہونے والے دھند کے اندر پھنسا ہوا ہے، کسی کو بھی کچھ نہیں معلوم کہ آئندہ کیا ہونے جارہا ہے، ملک میں اس وقت ہر کسی کی انائیں اس وقت ننگی ہو کر نہ صرف ناچ رہی ہے بلکہ اپنا اپنا جشن منا رہی ہے اور ملک بھٹکنے کی صورت میں اس کی ایک نہ ختم ہونے والی سزا بھگت رہا ہے۔ پاکستان اس وقت نارمل نہیں ہے بلکہ پوری طرح سے اب نارمل ہو چکا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو سلا دیا گیا ہے اور پاکستانی الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو دیکھ کر خود سرکاری ٹی وی بھی اس وقت شرما رہا ہے اور خود کو اندھوں میں کانا سے تشبیہہ دے رہا ہے کیونکہ وہ بھی کبھی کبھی کسی نہ کسی صورت میں ملکی عوام کا ترجمان بن جاتا ہے جو دوسری آزاد میڈیا ہونے کی دعویدار میڈیا اس وقت نہیں کر پا رہی ہے۔
میں کہہ چکا ہوں ملک میں سب ٹھیک نہیں ہو رہا ہے، ایک اسپرنگ کو پوری قوت سے دبا کر اپنے مطلوبہ نتائج اور صورتحال پیدا کرنے کی انتھک کوششیں کی جارہی ہے مگر بدقسمتی سے نتائج اس طرح کے بالکل بھی نہیں آرہے ہیں جو ملک میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی راہیں ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ اسپرنگ دبا کر رکھنے والوں کی بھی اب کانوں اور ناک سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا ہے۔ دوسری جانب جن علی بابا چالیس چوروں کے لئے یہ ساری کاوشیں کی جارہی ہیں وہ بھی آپس میں دوست نہیں بلکہ ایک غیر فطری اتحاد ہے جس کے ثمرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں یعنی جوتوں میں دال بٹنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اے این پی کے سربراہ ایمل ولی نے وہی الزامات گورنر خیبرپختونخواہ پر لگانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جو بہت پہلے میں اپنے وی لاگ میں کر چکا ہوں کہ خیبرپختونخواہ میں ایک غیر اعلانیہ گورنر راج لگا دیا گیا ہے، پولیس اور بیوروکریسی کے تمام ٹرانسفر پوسٹنگ گورنر مالی مفادات اور اپنی سیاسی پارٹی جے یو آئی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لئے کررہے ہیں جس کی وجہ سے اے این پی کو خیبرپختونخواہ میں بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے اور اس کے بعد ایمل ولی نے وزیر اعظم سے گورنر کی شکایت کی ہے کہ وہ انہیں ایسا کرنے سے منع کریں ورنہ ان کا اس اتحاد میں چلنا ممکن نہیں ہو گا۔ ادھر نادرا کے چیئرمین مسٹر طارق نے انتخاب میں دھاندلی کروانے کے لئے نادرا کو ٹول کے طور پر استعمال کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو دے دیا ہے۔ نادرا کے چیئرمین کے اس جرات اور بہادری پر انہیں بجائے خوش آمدید کہنے کے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے انہیں بلیک میل کرتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی اے اور ان کے بیرون ملک جانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
میں بالائی سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ ملک ابنارمل ہے کیونکہ کسیبھی نارمل ملک میں اس طرح کے عجیب و غریب اقدامات کم از کم حکومتی سطح پر نہیں کئے جاتے اور تو اور اب اس حکومتی اتحاد کے دو بڑے گروپوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آگئے یعنی اب ہانڈیا بیچ چوراہے پر گرنے جارہی ہے۔ اس لئے تو میں نے ڈر ڈر کر یہ لکھا تھا کہ پاکستان اس وقت نارمل نہیں بلکہ ابنارمل ہو چکا ہے کسی کو بھی نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے جارہا ہے۔ بجٹ تو پاس کروالیا گیا ہے، بالکل اسی طرح سے
ساماں ہے سو برس کا پل کی خبر نہیں
جیب میں پیسے نہیں ہیں اور پلاننگ لاکھوں کی جارہی ہے، میں نے عرض کیا تھا کہ اسپرنگ دبا کر رکھنے والوں کے کانوں اور ناک سے دھواں نکلنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے کیونکہ اتنی مشقت تو انہیں کبھی بھی نہیں کرنا پڑی تھی جو وہ اس وقت پوری طرح سے بے نقاب ہو کر کررہے ہیں لیکن نتیجہ بالکل اسی طرح سے ہے۔۔
سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو کیا کیا
پاکستان کو اس وقت انا سے عاری قیادت کی ضرورت ہے جو قانون کی حکمرانی کے سائے میں ملک کو صحیح ڈگر پر لے آئے۔
