سامی میرا بہت پرانا دوست تھا ہم نے بہت سا وقت اکھٹّے اور بہت اچھّا گزارا تھا۔لیکن جیسا کہ زمانے کا دستور ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ تعلیم روزگار اور اس کے بعد گھر بار ان تمام ذمّ داریوں کو نبھانے کے لئے معمولات میں بہت فرق آجاتا ہے۔ سامی ایک انٹرنیشنل کمپنی میں ملازم تھا اور شہروں شہروں اور کبھی کبھی غیر ممالک گھومنا پھرنا رہتا تھا۔لہذا اب ہم لوگوں کا ملنا کئی کئی عرصے بعد ہوتا تھا۔ ایسی ہی ایک شام سامی اور میں ایک ریسٹوران میں گرم گرم چائے کے گھونٹ لے رہے تھے۔باہر چونکہ اچھّی خاصی ٹھنڈ تھی لہذا چائے کا لطف بھی دوبالا ہوگیا تھا۔ہونٹوں سے چائے کی پیالی کو ہٹاتے ہوئے میں نے سامی سے کہا! یا ر سامی ایک بات تو بتاو¿؟ تم اپنے کام کے سلسلے میں باہر کے ممالک بھی جاتے ہو۔یوں تو میں بھی کئی ملکوں کی ویسے ہی سیر کرچکا ہوں لیکن عرب کے کئی ممالک میں دیکھنے سے محروم رہا۔ایک بات مجھے بڑی عجیب سی لگتی ہے عرب ممالک میں۔قطر،کویت،متحدہ عرب امارات کے ملک یہ کافی امیر ترین ملک ہیں۔لیکن میں نے امریکہ اور یوروپ میں اس ممالک کے ایسے لوگوں کی کافی تعداد دیکھی جو وہاں رہ رہے ہیں۔ان کے بزنس مثلا”الیکٹرونک اور دوسری اشیائ کی دکانیں بھی ہیں ، نوکریاں بھی کررہے ہیں اور بڑے بڑے بزنس بھی ہیں۔جب کے ان کے ممالک میں یہی بزنس پاکستان یا دوسرے غریب ممالک کے باشندے کررہے ہوتے ہیں۔اس نے چائے کی پیالی نیچے رکھّی اور ہنستے ہوئے بولا۔میرے بھائی ہمارے لوگ بھی تو ساری دنیا میں موجود ہیں۔سامی تم میرا مطلب نہیں سمجھے۔ہمارے یا ہمارے جیسے ملک کے افراد اس وقت باہر جاتے ہیں جب اپنے ملک میں ان کے لئے روز گار کے دروازے بند ہوتے ہیں۔غریب افراد زیادہ تر دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔سامی نے زور زور سے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا! کیا بات کرتے ہو یار میں بڑے بڑے ڈاکٹر انجینئر اور بزنس مین یہاں دکھادوں جو ہمارے ملک کو خیر آباد کہہ کر یہاں بس گئے ہیں۔میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔اور کہا سامی میں تمھیں تھوڑا سا عقلمند سمجھتا تھا مانتا ہوں یہ میری غلطی تھی۔چلو میں تمھیں تفصیل سے سمجھاتا ہوں۔پہلے اپنے ہی ملک کی مثال لے لو۔ہمارے ملک سے تین طرح کے لوگ باہر کے ممالک جاتے ہیں۔ایک وہ جو غریب فیملی سے تعلّق رکھتے ہیں اور وہ غریب ابن غریب ہوتے ہیں ان کو معلوم ہوتا ہے کہ نہ وہ اچھّی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی اچھّی نوکری لہذ ا وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ملک سے باہر چلے جائیں زیادہ تر خلیجی ریاستوں میں جاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خوش قسمتی سے امریکہ یا یوروپ جانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ ہوتے ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں کسی نہ کسی طرح اچھّی تعلیم بھی حاصل کرلیتے ہیں۔تعلقات اور رشوت نہ ہونے کی وجہ سے نوکریوں کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔اور اگر نوکری مل بھی جائے تو ان کی تعلیم اور قابلیت کے مطابق نہیں ہوتی۔لہذا دل برداشتہ ہوکر وہ باہر کے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس اچھّی نوکریاں یا کاروبار بھی ہوتے ہیں خوشحال زندگی گزار رہے ہوتے ہیں بچّے بھی اچھّے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔لیکن ملک کے حالات دیکھتے ہوئے اپنے بچّوں کے مستقبل سے مطمئن نہیں ہوتے لہذا موقعہ ملتے ہیں کسی باہر کے ملک کی سکونت اختیار کرلیتے ہیں او ر چین کی بنسری بجاتے ہیں۔اب آتے ہیں ایسے لوگوں پر جو ان تین سے علیحدہ ہیں یہ وہ کیٹگری ہے جسے مالدار کہا جاتا ہے باہر کے ممالک میں آنا جانا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔یہ امریکن یا یوروپین میں گھل مل کر رہنا چاہتے ہیں یہ لوگ باہر کے ممالک میں اس لئے رہتے ہیں کہ کھل کر عیّاشی کرسکیں کرتے تو یہ اپنے ملک میں بھی ہیں لیکن وہاں دھڑکا لگا رہتا ہے کسی لپیٹ میں نہ آجائیں۔لہذا۔۔۔۔اور اس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ مکمل کرتا سامی نے زور زور سے چٹکی بجاتے ہوئے مجھے خاموش کردیا۔۔،،بس ،،بس۔بس یہاں پر ہی رک جاو¿!! یہ جو آخری کیٹگری کا تم نے زکر کیا ہے تو بس سمجھ لو کہ یہ عرب کے امیر لوگ اس ہی کیٹگری میں آتے ہیں۔چونکہ ان کے ممالک اسلامی ممالک ہیں اور وہاں اسلامی قوانین ہیں۔یہ مجبور ہیں ان قوانین کو ختم نہیں کر سکتے پیسہ بے انتہا ہے۔ امریکہ اور یوروپ کی مانند عیّاشی کرنے کا دل کرتا ہے۔ لہذا یہ لوگ یوروپ اور امریکہ میں جاکر بس جاتے ہیں۔اور ہمارے ملک جیسے غریب اسلامی ممالک کے لوگ چونکہ مذہبی بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔اور مذہبی جذباتی بھی وہ لوگ ان عرب ممالک میں پہونچنا ہی اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں ،محنت بھی کرتے ہیں اور اپنے کاروبار بھی جمالیتے ہیں ۔ان کو اس طرح کی عیّاشیوں کا شوق بھی نہیں ہوتا۔لہذا خوش اور مطمئن زندگی گذارتے ہیں۔باقی یہ عرب کے لوگ جو باہر چلے جاتے ہیں یہ لوگ اپنے ملک میں خوشحال بھی ہوتے ہیں۔لیکن کردار میں جھول ہوتا ہے ڈرتے ہیں اپنے ملک میں پھنس نہ جائیں اسلامی قوانین سےڈرتے ہیں۔اسی وجہ سے کہ لوگ ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ان لوگوں نے مل جل کر دبئی کو عیّاشی کا اڈّہ بنادیا ہے۔ وہاں ہر وہ چیز میسّر ہے جس کے لئے لوگ باہر کے ممالک جاتے تھے وہاں کیا کچھ نہیں ہورہا ہے یوروپ اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔کیا یہ کوئی حیرانی کی بات ہے یا میں کوئی نیا اعلان کرنے جارہا ہوں کہ ،پاکستان ،انڈیا ،بنگلہ دیش،سری لنکا سے مسلمان لڑکیاں ہزاروں کی تعداد میں عرب ممالک جاتی ہیں جہاں وہ ایک دن سے لے کر ایک ہفتے تک کی دلہن ہوتی ہیں اور پھر پیسہ لے کر واپسی ہوجاتی ہے ،کسی عالم سے یہ بات کہو تو داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں تو کیا ہوگیا وہ لوگ نکاح کرتے ہیں یہ تو باقاعدہ شادی ہے اور اسلامی طریقے سے طلاق بھی ہوتی ہے دنیا بھر کا دل مان لیتا ہو اس بات کو میرا دل نہیں مانتا یہ سراسر دھوکا ہے ڈھونگ ہے اس کی سزا مل بھی رہی ہے اور ابھی اور عبرتناک سزا ملے گی۔سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے جس کے خلاف بڑے بڑے عالم حضرات تو کیا مفتی ا عظم امام کعبہ سب خاموش ہیں کوئی کھڑے ہوکر یہ نہیں کہتا کہ یہ اسلامی سرزمین ہے یہاں سے یہ عیّاشی کے اڈّے ہٹائے جائیں،۔ہمارے ملک کے عالم جو دنیا کے تمام مسائل پر سیر حاصل تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔فلسطین ہو برما۔انڈیا شام لبنان سب جگہ کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں ان کو دبئی نظر نہیں آتا کہ اس کے متعلّق بھی کوئی تبصرہ کریں۔اور میں نے سوچا یہ سامی غلط نہیں کہہ رہا ہے۔اسلامی دنیا میں کیا کچھ نہیں ہورہا ہے لیکن ہم آنکھیں بند کئے اپنے آپ کو دنیا میں سب سے افضل کہنے کی تسبیح پڑھے جارہے ہیں۔دنیا اندھی تو نہیں ہے سب دیکھ رہی ہے اس تمام ڈھونگ کو دنیا دیکھ رہی ہے اور اللہ بھی دیکھ رہا ہے ،اسی لئے کوئی مدد بھی آتی نظر نہیں آرہی ہے ہم سب کا کردار یہ ہے اور امیّد ابابیلوں کے لشکر کی لگاکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ابابیلیں تو آنے سے رہیں ہاں ! گدھ ضرور آئیں گے۔
478











