Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
زرداری کی چھٹی۔۔۔؟ 89

حقیقی آزادی بمقابلہ حقیقی غلامی

پاکستان کی پوری سیاست حقیقی آزادی اور حقیقی غلامی کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ ہی اس وقت پاکستانی سیاست کی زمینی حقیقیت ہے۔ حقیقی آزادی عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا نعرہ مشہور یا پھر ایک خواب ہے جو دھیرے دھیرے ہر پاکستانی کا خواب بن گیا ہر بچے حب الوطن پاکستانی کا خواب بن گیا ہے اور ہر کوئی اس کی تعبیر چاہتا ہے اور جو قوتیں بن بلائے مہمان کی طرح سے قیام پاکستان سے بلا شرکت غیرے پاکستان پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں انہیں آزادی کے لفظ اور اس کے مفہوم سے ہی سخت نفرت ہے کیونکہ آزادی کی وجہ سے ان کی حکمرانی خطرے میں پڑ جاتی ہے اس وجہ سے وہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے بھی خلاف ہیں۔ پاکستان کو بالخصوص اور پاکستانی عوام کو بالعموم غلام رکھنی کے لئے ہی آئے روز نئے نئے آئینی ترمیمات لائی جارہی ہے ان آئینی ترمیموں کے ذریعے ہر ادارے کی آزادی سلب کی جارہی ہے اور ان کے ناخن تراش کر علامتی بنایا جارہا ہے اب 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کی برائے نام آزاد عدلیہ کی رہی سہی آزادی بھی ختم کی جارہی ہے اب اس آئینی ادارے کو بھی کے ایم سی، کے ڈی اے، ایف آئی اے اور پولیس کے علاوہ سول بیوروکریسی کی طرح سے سیاستدانوں کے براہ راست کنٹرول میں دیا جارہا ہے اب ہائی کورتس کے ججز کا ان سے پیشگی رائے لئے بغیر سپاہیوں اور کلرکوں کی طرح سے ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کیا جا سکے گا اور ان ججز پر اب آئینی لحاظ سے یہ واجب ہو گا کہ وہ اس تبادلے کے آرڈر پر بلا کسی چوں چراں کے عمل کرے اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اس صورت میں ان کے پاس سوائے استعفی دینے کے اور کوئی آپشن نہیں ہو گا اس طرح سے سرکش باغی یا پھر حکومت کے اشارے پر دم نہ ہلانے اور انصاف اور آئین کا سر بلند کرنے والے ججز کو قابو کرنے یا پھر بلیک میل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو 27 ویں ترمیم کے منظور ہوتے ہی نافذ العمل ہو جائے گا اس طرح کے آئینی ترمیموں کے ذریعے عمران خان کے حقیقی آزادی کے خواب کو چکنا چور کرکے انہیں حقیقی غلامی کے سیاہ اندھیروں میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر اس طرح کی آزادی کو سلب کرنے والے آئینی ترمیموں کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو پاکستان ایک بار پھر کالونی کی صورت اختیار کر جائے گا بظاہر تو وہ ایک آزاد ملک ہے مگر ان کے لئے جو اس پر حکمرانی کررہے ہیں ان کے لئے جو اس میں رہ رہے ہیں جمہوریت کے ذریعے ہی تیس کروڑ پاکسانیوں کو غلام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ملکی عوام جو چاہتے ہیں وہ اپنی ووٹوں کے ذریعے جن کا انتخاب کرتے ہیں انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے بالکل 1971ءکی طرح سے جو کچھ اس وقت عوامی لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا وہی آج کل تحریک انصاف کے ساتھ کیا جارہا ہے، اکثریت پر اقلیت کی ترجیح دے کر فارم 47 کے تحت ایک جعلی اور غیر قانونی حکومت بنا کر ان کے ذریعے آزادی کو سلب کرنے والے آئینی ترمیمات لائی جارہی ہے جو پارلیمنٹ ہی جعلی ہو تو پھر اس کے قانون سازی کی اصلیت کیا ہوسکتی ہے؟ جس طرح سے 1971ءمیں اکثریت کی رائے کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی صورت میں ملک دو لخت ہوا بالکل اسی طرح کی صورتحال اب صوبہ خیبرپختونخواہ میں ہو چکی ہے وہاں کے ساڑھے چار کروڑ عوام اٹھ کھڑے ہو گئے ہیں اپنی حقوق کی حفاظت کے لئے۔۔۔ ان کے آئینی حقوق پر بذریعہ طاقت شب خون مارنے کی کوشش کی مگر وہاں کے غیور اور محب الوطن پختونوں نے ان کی یہ ساری کوششیں ناکام بنا دی۔ آج وزیر اعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی اپنے جوشیلے بیانات کے ذریعے سسٹم کے سینے پر مونگ دلنے لگا ہے۔ بالکل عمران خان کے ایبسلوٹلی ناٹ کی طرح سے سہیل آفریدی کا بھی یہ جملہ ”تیری ایسی کی تیسی“ توپ کا گولہ بن کر سسٹم اور ان کے لفافہ بردار صحافیوں پر جا کر گرا ہے۔ اگر پالیسی میکرز اسی طرح سے بند کمروں میں فیصلے کرتے رہے تو اس سے صورتحال 1971 ءسے بھی زیادہ بدتر ہو سکتی ہے اس لئے انہیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے۔ ملک عوام سے ہے، اداروں سے نہیں، جمہوریت جمہور سے ہے اس لئے جمہور کے خواہشات کو کچلنے کے لئے جمہوریت کو ہتھیار بنا کر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے اسی میں پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں