پاکستان پر آخری اور کاری وار کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ انا پرستی اور خودغرضی میں عوام کا مینڈیٹ چھین کر انہیں ایک بار پھر چور، اچکوں اور لٹیروں کے حوالہ کردیا ہے۔ پرانے چہرے اور پرانے نعرے، مگر شاید اب یہ زیادہ عرصہ نہ چل سکیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل باشعور ہے جس کا مظاہرہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں ظاہر ہوچکا ہے۔ بندوق کی نوک پر فیصلے تو کرلئے گئے اور عوام نے خاموشی بھی اختیار کرلی مگر اب یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہر ادارے میں انا پرست اور خودغرض سربراہ بیٹھے ہیں۔ جنہیں ملک سے نہیں صرف اپنی ذات سے پیار ہے۔ وفاق میں اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف سے اپنا پرانا قرضہ چکا لیا اور مزید امتحان میں ڈالنے کے لئے اور ان کی پارٹی کو مزید گہرائی میں دفن کرنے کے لئے ان کے بھائی شہباز شریف کو ایک بار پھر وزیراعظم بنا دیا گیا ہے اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جارہا ہے یعنی بزدار پر انگلی اٹھانے والے پنجاب کو آج ایک نئے بزدار کے حوالہ کررہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے سر پر آصف زرداری کا تازیانہ تیار ہے جو ”صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں“ کی طرز پر حکومت میں نہ رہتے ہوئے حکومت کے تمام مزے لوٹیں گے اور گناہوں کی پوٹلی شہباز شریف اپنے کندھوں پر اٹھائے جلد پیا کے گھر سدھار جائیں گے۔ عوام یاد رکھے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹتے تھے مگر آج ملک گھسیٹنے پر مامور کر دیئے گئے۔
مجھے یاد ہے چند سال قبل نواز شریف نے بیان دیا تھا کہ میں اب نظریاتی ہو گیا ہوں اور نظریاتی ہونے کے بعد انہوں نے فوج اور جنرل باجوہ پر تابڑ توڑ حملے کئے تھے مگر پھر جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ عوام یہ بھی نہیں بھولے ہوں گے کہ آصف علی زرداری نے کہا تھا ”پاکستان کھپے یا نہ کھپے“ انہوں نے فوج کے جنرلوں کو بھی للکارا تھا کہ تم تو چند دنوں کے لئے ہو باقی دن ہمارے ہیں مگر آج وہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ یا انہیں سمجھا دیا گیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانا ہے تو مل جل کر ملک کو لوٹنا ہوگا۔ پاکستان کی بندر بانٹ میں حصہ داری انصاف سے ہوگی۔
یوں پاکستانی عوام جانتے بوجھتے ہوئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، کسی کی ماں کو اٹھا لیا گیا، کسی کے باپ کے سامنے اس کی بیٹی کے کپڑے اتار دیئے گئے۔ ہزاروں نوجوانوں کو غائب کردیا گیا، حتی الامکان کوشش کی جارہی ہے کہ اپنی بقاءکو سلامت رکھا جائے۔ اب یہ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ یہ جنگ تو اپنے آخری مراحل میں ہے، اب یا تو وہ اس سسٹم سے آزادی حاصل کرلیں یا پھر ہمیشہ کے لئے خود کو اس گندے سسٹم کا غلام بنا دیں۔ پاکستان میں 8 فروری کے بعد جو امید کی کرن نظر آئی ہے وہ وہاں کے نوجوان طبقہ اور آنے والی نسل سے ہے۔ جسے بزور طاقت ختم کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ 74 سالوں سے ملک پر قابض سیاستدان نہیں کیونکہ انہیں سیاستدان کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ ان چوروں، اچکوں، ٹھگوں، لٹیروں کے علاوہ فوجی جنرل، اداروں کے سربراہ بھی شامل ہیں جو اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام یہ جنگ جیت کر پاکستان کو بچا سکیں گے یا پھر ہار کر ملک کو ایک بار پھر ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھتے رہیں گے۔
اللہ پاکستان اور عوام کی حفاظت فرمائے، آمین۔
310











