دنیاوی قانون کو توڑتے توڑتے پاکستانی پالیسی میکرز قانون قدرت کو توڑنے کی ناکام کوشش کے ذریعے عمران خان کی بالخصوص اور ان کی سیاسی جماعت کی بالعموم ایک طرح سے مارکیٹنگ کررہے ہیں۔
اتوار 17 دسمبر کو ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سروس بند کروا کر عقل مند لوگوں نے اپنے طور پر تحریک انصاف کے آن لائن جلسے کو ناکام بنانے کی کوشش کی مگر ان خود ساختہ ارسطوﺅں اور سقراطوں کو ذرا بھی اس بات کا فہم و ادراک ہی نہیں کہ ان کی ان بچکانہ حرکتوں کی وجہ سے جہاں وہ آن لائن جلسہ بہت زیادہ کامیاب ہوا وہیں پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی بھی ہوئی۔
ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے، کسی چیز کو جتنا زیادہ دباﺅ گے وہ اتنی ہی قوت سے واپس آئے گی، اسے معروف سائنسدان نیوٹن نے دریافت ضرور کیا تھا مگر یہ قانون قدرت ہے یعنی ہر عمل کا کا ردعمل ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی ساری سرکاری مشینری ایک ہی شخص عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔ پاکستان کے سارے قوانین کا استعمال ایک شخص کو ڈرانے گرانے ہرانے اور جھکانے میں لگا ہوا ہے مگر فولاد سے زیادہ مضبوط ارادوں اور اعصاب کے مالک عمران خان نے پوری سرکاری مشینری کو اپنے ایک ارادے اللہ اور اس کے بعد ملکی عوام کے تعاون اور محبت سے تگنی کا ناچ نچوانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری اس پتلی تماشہ کو پوری قوم اپنی کھلی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے کہ کون کیا کررہا ہے؟ ملکی عوام کی عزت و حیثیت حکمرانوں کی نظروں میں کیا ہے، کون کسے بیل گائے کی طرح سے استعمال کررہا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی عوام نے عمران خان کو اپنی ضد بنا لیا ہے اور تمام تر سختیاں اور مشکلات کے باوجود لوگ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کی مخالفت میں پاکستان کی پوری میڈیا اپنی اہمیت اپنی حیثیت اپنی سچائی اور اصول پرستی سب کی سب داﺅ پر لگا کر عوام کی نظروں میں گر چکی ہے جس کا زندہ ثبوت ملکی میڈیا پر سوشل میڈیا کا سبقت لے جانا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کو اب ملکی عوام بالکل بھی خاطر میں نہیں لارہے ہیں کیونکہ ان کا گمراہ کن اور من گھڑت پروپیگنڈہ مالکان اور اینکرز کے اثاثہ جات میں اضافے کا باعث ضرور بنا ہے مگر وہ میڈیا اپنے دیکھنے والوں سے ضرور محروم ہو چکا ہے۔ سب کی ریٹنگ آسمان سے گر کے زمین پر آگئی ہے۔ باہر بیٹھے اینکرز معیز پیرزادہ، صابر شاکر وغیرہ کے پروگرام جتنے لوگ دیکھتے ہیں اس تعداد میں تو پاکستان کے 33 چینلز کے دیکھنے والے بھی نہیں ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ملکی عوام کتنی بدل چکی ہے۔ پاکستان میں کتنا بڑا انقلاب آگیا ہے، ادارے کتنے زیادہ بے نقاب ہو کر اپنے عوام کی نظروں میں اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکے ہیں۔ یہ وہ تلخ حقیقت اور سچائی ہے جسے پاکستانی سقراط اور ارسطو ماننے کو تیار نہیں۔ وہی خود کو عقل کل سمجھ کر ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ بقول معروف شاعر شیخ ابراہیم ذوق کے
بجا کہے جسے عالم اُسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھو
یہ ایک عام سا سیدھا سادا فارمولا ہے جسے پرائمری اسکول کا بچہ تک جانتا ہے مگر بدقسمتی سے بدنصیب پاکستان پر حکمرانی کرنے والے اس کلیہ سے لاعلم ہیں، وہ اپنے ہی عوام کی صدا ان کی پکار کو یا تو واقعی سمجھ نہیں رہے ہیں یا وہ سرے سے سمجھنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ عوام کی یہ چاہت خود ان کے اپنے چاہتوں کے خلاف ہے اس لئے وہ خلق خدا کے اس زبان کو سننے کی بجائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کے درپہ ہیں۔ اس پر ہی اپنی ساری توانائیاں صرف کررہے ہیں اور وہ دوسروں کی خوشنودیوں کے لئے جو کچھ کررہے ہیں، اس سے وہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں، بدنصیب پاکستان تباہی کی اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ اب اسے کوئی معجزہ ہی تباہی و بربادی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کے لئے ملکی عوام کو اسی طرح سے اتحاد اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی دشمن سیاسی پارٹیوں کا پوری طرح سے سوشل بائیکاٹ کرنا چاہئے تاکہ جس طرح کی میر جعفروں اور میر صادقوں کی پارٹیوں کو الیکشن کے پراسسز سے گزار کر حکمراں بنوایا جارہا ہے وہ خواب ملکی عوام کے دانشمندی اور اتحاد و جرات کے ذریعے ناکام کیا جا سکے۔ اسی میں پاکستان کی بقاءاس کی سلامتی مضمر ہے۔
