شریفوں نے بالاخر سو پیاز اور سو جوتے کھانے کے بعد دل پر جبر کرتے ہوئے نوٹی فکیشن جاری کر ہی دیا۔ اگر وہ پہلے ہی معاملے کی سنگینی اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے اچھے بچوں کی طرح سے اس نوٹی فکیشن کو جاری کر دیتے تو نہ انہیں شرمندگی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ اس دراڑ یا پھر خلیج کا۔۔۔ جو اس واقعہ سے پیدا ہو گیا، کہتے ہیں کہ جب شیشے میں ایک بال آ جائے تو پھر اسے نکالنا ممکن نہیں ہوتا وہ شیشہ ٹوٹ تو جاتا ہے مگر وہ بال نہیں نکلتا، کچھ اسی طرح کی صورتحال شریفوں اور ان کے لانے والوں میں پیدا ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں خود بڑے میاں صاحب ہیں جو خود کو پاکستانی سیاست کے سقراط و بقراط خیال کرتے ہیں وہ ایک اس طرح کے سقراط ہیں جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں پھر بھی بضد ہیں اور دعویدار ہیں کہ وہ مومن ہیں۔۔۔
آج ایک بار پھر اسی مقام پر آگئے جہاں سے وہ بچھڑے تھے بقول شون رضوی کے اس فلمی گیت کے
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرتے تھے ہم جہاں سے
قارئین آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ دراصل یہ جو لوگ ڈیڑھ ہوشیار ہوتے ہیں وہ اسی طرح کے غلطیاں کرتے ہیں اچھا خاصا کام چل رہا تھا دونوں ہی ایک پیج پر تھے لیکن اس بلیک میلنگ کی عادت نے میاں صاحب کو کہیں کا نہ چھوڑا وہ دراصل ڈنڈے والی پوسٹ اپنے کسی پیادے کو دلوانا چاہتا تھا تاکہ اس پورے سیٹ اپ کو وہ تھانیدار کی طرح سے چلا سکے مگر بقول مرزا غالب کے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوٹی فکیشن تو نکل گیا اور 2030ءتک وہ قابل عمل رہے گا اب تیرا کیا بنے گا کالیہ۔۔۔ یعنی اب شریفوں کا کیا بنے گا؟ میرا مطلب ہے بڑے میاں صاحب کا کیا بنے گا؟ کیا وہ اب اس نئی 2030ءتک کہ سیٹ اپ کو چھیڑنے یعنی بلیک میل کرنے کے قابل ہیں؟ یا پھر وہ بھی اس نئے اور طاقت ور سسٹم کے رحم و کرم پر آگئے ہیں اب آگے کیا ہو گا یا پھر ہونے جارہا ہے۔۔۔ یہ بات تو طے ہے کہ دوریاں پیدا ہو چکی ہیں، پتے کھل چکے ہیں، کردار بے نقاب ہو گئے ہیں اور مقتدر حلقوں پر بھی ان کی حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ یہ کتنے بڑے بلیک میلر ہیں جو اپنی بلیک میلنگ سے بالکل بھی باز نہیں آرہے ہیں، ڈسنا ان کی فطرت ہے اور ڈسنے سے یہ کبھی باز نہیں آسکتے؟ اس وجہ سے اس نئے سیٹ اپ کا بھروسہ یا اعتبار بڑے میاں صاحب سے اٹھ چکا ہے لہذا اب ان کی حالت ایک میان میں دو تلواروں والی بن گئی ہے جس طرح سے ایک میان میں دو تلواریں نہیں نبھا سکتی اسی طرح سے اب ان دونوں کا ایک ساتھ چلنا نا ممکن ہو گیا ہے کسی ایک کا جانا اب ناگزیر ہو چکا ہے، ظاہر ہے شریفوں کی حکومت کا چلنا اب مشکل نہیں بلہ ناممکن ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ سب کچھ آناً فاناً نہیں ہو گا اس میں بھی تھوڑا بہت وقت لگے گا۔ لیکن میاں صاحب ہی خطرے کو بھانپ چکے ہیں کہ ان کی سیاست اور ان کی چالیں بری طرح سے ناکام ہو گئی ان ہی کے ہاتھ تراشے ہوئے۔ اب ان کے لئے۔۔۔
مسلم لیگ نون کے خلاف آگے چل کر صورتحال خراب ہونے جارہی ہے اگرچہ اندرون خانہ نوٹی فکیشن کی غیر معمولی تاخیر کو غلط فہمی اور فنی خرابی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے مٹی پاﺅ والی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ معافی تلافیاں کی جارہی ہے اور خوشامد اور چاپلوسی سے کام لیا جارہا ہے مگر اب شاید بہت دیر ہو گئی اب پاور کے ان دو بڑے ستونوں میں ہونے والی خلیج یا پھر سرد جنگ کا فائدہ کسے پہنچے گا آصف علی زرداری کی پارٹی کو، یا پھر تحریک انصاف کو ، عمران خان کو، یا سب سے بڑھ کر پاکستان اور اس کے رہنے والوں کو، جو بھی ہو اس ملک اور اس کے رہنے والوں کے لئے بہتر ہو، ملک کی سلامتی کو ہر طرح کی طرز سیاست پر مقدم خیال کرنے کی ضرورت ہے اسی میں پاکستانی عوام کو فلاح و ترقی مضمر ہے۔
18











