پاکستان میں صحافت کی موت ہو چکی ہے وہ بھی ابھی نہیں بلکہ اسے مرے ہوئے بھی سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا اور خود صحافی ہی اپنی صحافت کی برسی منانا بھول گئے ہوں یا پھر ایسا کرنا بھی کسی خوف کا کسی مصلحت کا یا پھر کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ میں آج ایسا کیوں کہہ رہا ہوں، لکھ رہا ہوں، اس لئے کہ پاکستان جو اس وقت ایک سے بڑھ کر ایک بریکنگ اور چونکا دینے والی خبروں کے دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے مگر وہ وہاں کی روح سے محروم ایک مردار بلکہ زندہ لاش صحافت نہ صرف ٹھیک ہے کی رپورٹ دے رہی ہے بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ گھڑنے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت پیش کررہی ہے۔ پاکستان میں صحافت سے پہلے آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ انصاف اور اخلاقیات کو دفن کردیا گیا تھا ان کی لاشیں اور ان کا انجام دکھانے کے بعد ہی صحافت پر ہاتھ ڈالا گیا اور اس کے بعد ہی پاکستان کو سچائی کے لئے نوگو ایریا بنا دیا گیا۔ ایسا کرنے کے لئے پاکستان کے سب سے مقبول اور بڑے نڈر دلیر صحافی عمران ریاض خان کو اغواءکروا لیا گیا۔ پاکستان سے سچائی کا خاتمہ کرکے اسے پوری طرح سے ”جھوٹستان“ بنا دیا گیا۔ پاکستان کر ہر نیوز چینل ماسوائے چند ایک کو چھوڑ کر سارے کے سارے اسی طرح سے سارے اخبارات ایک آدھ کو چھوڑ کر پیٹ بھر کے جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنے ملکی عوام کو گمراہ کررہے ہیں انہیں بالکل غلط ترین اطلاعات دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو ہیرو غازی اور مجاہد بنا کر اور مجاہدین اور ملک سے عقیدت کی حد تک محبت کرنے والوں کو جھوٹے مقدمات بنوا کر دہشت گرد ملک دشمن ظاہر کیا جارہا ہے ایسا کرنے میں پاکستان کی بے ضمیر لالچی اور بے ایمان حرام خور میڈیا سہولتکاری کا کردار ادا کررہی ہے کیونکہ صحافیوں کے بھائی ہی اس وقت وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں جن میں کونسلر کا الیکشن جیتنے کی صلاحیت نہیں ان جیسے نکمے اور دھتکارے ہوئے لوگ جب صحافت کے مزے لوٹتے رہیں گے تو پھر صحافیوں کو اسی طرح سے معذرت کے ساتھ طبلچی بن کر صحافت کا جنازہ نکالنا ہی پڑے گا۔ اس وقت ملک میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔
کراچی سے دو کسٹم کے بڑے افسران اغواءکر لئے گئے، جنگ کا نمائندہ اغواءکرلیا گیا، کون ہے اغواءکار، اگر کسی کو حقیقت کا علم نہیں تو وہ ملکی عوام ہے، مگر میڈیا کو تو سب معلوم ہے، پھر میڈیا نے کیوں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، وہ میں تو بھول گیا، صحافت کی تو موت ہو چکی ہے، میں پاکستان میں کسی صحافی سے فون پر بات نہیں کرتا کیونکہ وہ بے چارے سہمے ہوئے ہوتے ہیں، ڈرے ہوئے ہوتے ہیں اور سرگوشیوں میں بات کرتے ہیں اور جو ذرا بہادری اور دلیری کا ناٹک کرتے ہوئے بات بھی کر لیتا ہے تو اس طرح کی منطقی استدلال کرتے ہوئے حکومتی غلط اقدامات کی وضاحت کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ان کی ان بے سری دلیلوں کو سنتے ہی مجھے سقراط کے دور کے سو فسٹ یاد آجاتے ہیں جو اپنی چرب زبانی کے ذریعے اس طرح سے دلائل دیتے تھے کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرلیا کرتے تھے اور لوگ ان کی باتوں پر یقین بھی کرلیا کرتے تھے ان کے اس دونمبری علم کو ہی تاریخ میں سو فسٹری کہا جاتا ہے جس کی سقراط کی دلیلوں سے نفی ہوتی رہی ہے، وہی سو فسٹری کا علم ان دنوں پاکستان کے صحافی اور وکلاءکی بڑی تعداد بھی استعمال کررہی ہے، اس طرح کے لوگوں کی سوچ اور ان کی ذہنی حالت پر سوائے افسوس اور ماتم کے اور کیا کہا جا سکتا ہے جو سچ کو سچ بولنے کی ہمت اور جرات بھی نہیں کرتے، اس کے بعد بھی خود کو نہ صرف صحافی کہلواتے ہیں بلکہ آزادی اظہار رائے کی راگ بھی الاپتے رہتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ ان کے لئے مشورہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنی نوکری بچانے کے لئے سچ نہیں بول سکتے تو خدارا جھوٹ بول کر اپنے عوام کو گمراہ کرنے کا باعث تو نہ بنیں، خاموشی اختیار کرلیں ایک غلط کام میں دوسروں کے سہولت کار بن کر ان کی مدد تو نہ کریں، سارے صحافی جانتے ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف یہ جو مقدمات کے اندراج کا بلیم گیم ہو رہا ہے وہ سراسر غلط ہے، عدالتیں بھی جانتی ہیں جو پولیس والے ایسا کررہے ہیں وہ بھی یہ سب جانتے ہیں مگر اس کے باوجود صحافیوں کا اس پر خاموسی اختیار کرنا ہی دراصل ان کی موت کا ان کی بے ضمیری کا ایک اعلان ہے، ملکی عوام کو اس طرح کی بکاﺅ مال میڈیا کا سوشل بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
