Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 90

عالمی بدمعاشی

قطر پر حملہ عالم اسلام پر حملہ ہے یہ عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور غنڈہ گردی اور بدمعاشی ہے، دوحہ پر کیے جانے والے بمباری کے بعد اسلامی ممالک کے وزراءخارجہ کی جانب سے اسی طرح کے پیغامات جاری کئے گئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے اس حملے میں براہ راست یا پھر بالواسطہ امریکہ کے ملوث ہونے کے الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں جب کہ امریکہ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے کی پیشگی اطلاع قطر حکومت کو دے دی گئی تھی لیکن اس کی تردید قطر حکومت کر چکی ہے کہ اطلاع اس وقت دی گئی جب حملہ ہو چکا تھا یعنی صرف ایک خانہ پری کی گئی یہ حملہ کسی بھی ملک کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے اور اس کا اقوام متحدہ کو نوٹس لینا چاہئے اس طرح سے تو اسرائیلی جارحیت سے کوئی بھی مہذب اور قانون پسند ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا یہ ایک بہت بڑا عالمی جرم ہے اور اس پر اقوام متحدہ کو اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے حرکت کرنا ہوگا۔ حملہ کسی بھی وجوہ کو بنیاد بنا کر نہیں کیا جا سکتا اس طرح کا اختیار کسی بھی ملک کو حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اندر اس طرح کی کارروائی کرے اسے یکطرفہ جنگ ہی کہا جا سکتا ہے۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی۔۔۔
اس حملے کے بعد اب انگلیاں امریکہ کی طرف اٹھ رہی ہیں کہ امریکہ کے حمایت یا اس کی سرپرستی کے بغیر اسرائیل اتنا بڑا کام یا پھر اتنا بڑا جرم کر نہیں سکتا اس لئے پاگل کو نہیں بلکہ پاگل کی ماں کو مارو کے مصداق عالمی برادری کو سر جوڑ کر اس کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرنا ہو گا اس پر خاموشی اختیار کرنے کا مقصد پاگل اور اس کی ماں کی جارحیت کو مزید ہوا دینا ہے۔ ان کے مزید حوصلے بلند کرنا ہے، آج اگر قطر پر حملہ کیا گیا تو کل عرب امارات، سعودی عرب اور ایران پر بھی کسی نہ کسی بہانے حملہ کیا جا سکتا ہے، حملہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دوحہ میں حماس کے ان رہنماﺅں کی خفیہ میٹنگ چل رہی تھی جو اسرائیل کو مطلوب تھے اور وہ اسرائیل پر حملے کرنے سے متعلق بھی میٹنگ کررہے تھے اور قطر حکومت نے انہیں پناہ دے رکھی ہے۔ اس لئے وہاں اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لئے حملہ کرنا پڑا جب کہ قطری حکومت کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما غزہ کے معاملے پر ایک امن میٹنگ کررہے تھے کہ ان کے اس امن میٹنگ کو سبوتاژ کرنے کے لئے ہی اسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملہ کردیا جن پر عالم اسلام بالخصوص اور باقی ماندہ پرامن ممالک بالعموم سراپا احتجاج ہیں کہ اس عالمی غنڈہ گردی کو رکوانے کے لئے اقوام متحدہ کے ساتھ خود امریکہ پر دباﺅ ڈالنا ہوگا۔ امریکہ کی جانب سے قطر کو دوبرہ اس طرح کے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی کروانا ہی کافی نہیں ہے یہ جو واقعہ ہوا ہے اس کے ذمہ داروں کے خلاف قرار واعی کارروائی ہونی چاہئے۔ تمام اسلامی ممالک کو بطور احتجاج اسرائیل کا سفارتی بائیکاٹ کرنا چاہئے اپنے اپنے سفیروں کو اسرائیل سے واپس بلانا چاہئے اور اسرائیل کا تجارتی اور سوشل بائیکاٹ بھی کرنا چاہئے اور یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک اسرائیل اپنی اس غنڈہ گردی پر ناک رگڑ کر معافی نہ مانگے اور اب تو ان لوگوں کو اپنے کیے پر شرمندگی اور ندامت ہو رہی ہو گی جنہوں نے خوشامد اور چاپلوسی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے جوش خطابت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کیا تھا۔ دنیا میں ان کے امن کے لئے خدمات کے حوالے سے پیش آنے والے اس طرح کے واقعات ہی کافی ہیں کہ اب کوئی ملک بھی اسرائیلی جارحیت سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس مسئلے کے لئے اسلامی ملکوں کو اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تب جا کر وہ اس جارحیت اور غنڈہ گردی کا مقابلہ کر سکیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں