امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پلان پر شدید تحفظات اور اعتراضات کے آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، دور اندیش مسلم رہنماﺅں نے اس پلان کو ایک سازش قرار دیا ہے، ایک اس طرح کی سازش کے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو ان کے جدوجہد سے روکنا اور ان کی جدوجہد کو کچلنا ہے اور دوسری جانب اسرائیل غنڈہ گردی اور جارحیت کو ایک طرح سے قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے اور مزاحمتی تحریک ”حماس“ کو کمزور اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی مبینہ غنڈہ گردی اور تھانیداری کے لئے راہیں ہموار کرنا ہے اس وجہ سے خود قطر کے وزیر اعظم نے بھی اس منصوبہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس غزہ پلان کو یکسر مسترد کردیا ہے اور اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا ہے جب کہ خود یورپ میں بھی ٹرمپ کے اس غزہ پلان پر تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ اس سارے پلان میں ٹرمپ کا جھکاﺅ اسرائیل کی طرف صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے اور بعض اہم ترین عرب ممالک بھی اس سارے کھیل میں اسرائیل کے سہولت کاری کا کردار ادا کررہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پلان کی داغ بیل پہلے ہی ڈال دی گئی تھی اس سارے پلان میں پاکستان اور سعودیہ کا کردار بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو گرانے سے ہی اس کھیل کی شروعات کردی گئی تھی کیونکہ عمران خان اور ان کا وژن اس پلان کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھا جس کی شکایت عرب ممالک سے وقتاً فوقتاً ہوتی رہی یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ اس سے پہلے نہ ہو سکا اس دفاعی معاہدے کے تانے بانے بھی اسی غزہ پلان سے جا کر ملتے ہیں یہ معاہدہ بھی امریکہ کی مرضی یا پھر ان کے مشورے سے کیا گیا ہے اس معاہے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے علاوہ غزہ میں اپنے فوجی دستے بھجوانا بھی شامل ہے اسی لئے یہ معاہدہ عمران خان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا کیونکہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا پہلا نعرہ ہی بانی پاکسان قائد اعظم کا تھا اور ان کے احکامات کے تحت ہی پاکستان کے سبز پاسپورٹ پر لکھا گیا کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک میں استعمال کیا جا سکتا ہے اب اس معاہدے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں بانی پاکستان قائد اعظم کے وہ ارشادات وہ احکامات کہاں جائیں گے۔
پاکستان اس ساری صورتحال کی وجہ سے مشکل میں آگیا ہے اور اب امریکی صدر کے پاکستانی حکمرانوں اور فیلڈ مارشل سے بار بار ملنے اور ان کی ضرورت سے زیادہ تعریفیں کرنے کی اصل وجہ سمجھ میں آگئی کہ آخر امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد پاکستان سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ پاکستان اسلامی دنیا کا ایک ایسا واحد مسلمان ملک ہے جو ایٹمی پاور کا مالک ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسرائیل دنیا میں صرف اور صرف پاکستان سے خوفزدہ ہے اور یہ خوف و دہشت اب سے نہیں بلکہ اس کے معرض وجود میں آتے ہی ہو گئی تھی اور اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں خطابکرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ”اسرائیل کو پوری دنیا میں کسی بھی ملک سے کوئی خطرہ نہیں سوائے پاکستان کے“ حالانکہ اس وقت پاکستان کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں تھا بلکہ دوسری جنگ عظیم کا زنگ آلود اسلحہ ان کے پاس تھا، اس تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اندازہ لگائیں کہ غزہ کے اس خونی پلان کو کامیاب کروانے کے لئے پاکستان کو اس میں شامل کرنا کتنا ضروری تھا اور آج جس طرح کی حکومت پاکستان میں ہے اسی کے ذریعے یہ پلان کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی جمہوری اور عوامی حکومت اپنے ہی ملک کے بانی کے نظریات اور ان کے فیصلوں سے غداری کا جرم نہیں کر سکتی اب امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ پلان سامنے آگیا ہے اور حماس کو دھمکی بھی دیدی گئی ہے کہ وہ مغوی چھوڑ دے ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جائے، مظلوم کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اپنے حفاظت خود اختیاری کے حق سے محروم کرکے ظالم کی حمایت کی جارہی ہے اس کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا خواب دیکھا جارہا ہے، قطر، ایران اور ترکی کے علاوہ باقی سب کے سب خاموش ہیں اور دو تین عرب ممالک اس میں دلالی اور سہولت کاری کررہے ہیں پاکستانی حکمرانوں کو اس سارے کھیل میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کھیل سے خود پاکستان کی اپنی سلامتی جڑی ہوئی ہے۔
