دوحہ/ رواشنگش، غزہ (فرنٹ ڈیسک) فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی صدر کے غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے سمیت کچھ شقوں میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ حماس کے مذاکرات کاروں نے دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کی اور کہا کہ ہمیں جواب دینے کیلئے زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن درکار ہوں گے حماس کی قیادت تنظیم کے غیر مسلح ہونے ، پارٹی قیادت اور ارکان کی غزہ سے بے دھلی کی شقوں میں ترمیم چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق حماس چاہتی ہے کہ غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی بین الاقوامی ضمانتیں فراہم کی جائیں جبکہ اس بات کی بھی ضمانت دی جائے کہ اس کے رہنماو¿ں کی اندرون یا بیرون ملک ٹارگٹ کنگ نہیں ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس نے واضح کیا کہ منصوبے میں دفاعی اور حملہ آور ہتھیاروں میں فرق کیا جائے ، جبکہ اسرائیلی انخلا کیلئے ایک واضح ٹائم فریم مقر رکرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے پر جواب دینے کیلئے حماس کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تین سے چار روز کے اندر اپنا رد عمل دیں۔ صحافیوں کی جانب سے منصوبے پر عمل درآمد کے ٹائم فریم کے متعلق پوچھے گئے سوال پر صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم اس پر تین سے چار روز کے اندر کام کرنے جارہے ہیں، ہم صرف حماس کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ایسا کرنے جارہی ہے یا نہیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو صورت حال ایک افسوسناک اختتام کی طرف بڑھے گی۔ دریں اثنا قطری وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمن بن جاسم الثانی نے کہا کہ ٹرمپ منصوبے کے کئی نکات وضاحت اور مذاکرات کے متقاضی ہیں ، غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے معاملے میں وضاحت درکار ہے، اس پر مزید بات چیت ہونی چاہیے۔ امید ہے کہ تمام فریق منصوبے کو تعمیری انداز میں دیکھیں گے، غزہ میں فلسطینی انتظامیہ پر امریکہ کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔ قطر ایسا راستہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جو فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ الجزیرہ سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کی معافی کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارا بنیادی حق تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ جنگ بندی منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس حوالے سے عرب اور مسلم ممالک کے کردار کو سراہا، انہوں نے تمام فریقوں سے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ غزہ میں شدید انسانی تکالیف کوکم کرنا اولین ترجیح ہے، امید ہے کہ یہ اقدامات دور یاستی حل کیلئے ساز گار حالات پیدا کریں گے۔ادھر جنگ بندی منصوبے پر بات چیت کے باوجود اسرائیل کی بربریت میں کوئی کمی نہیں آئی اور گزشتہ روز اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں ایک سکول اور امدادی مرکز کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں مزید 51 فلسطینی شہید اور 242 زخمی ہو گئے۔ صیہونی فوج نے غزہ شہر کا محاصرہ مزید سخت کر دیا ہے اور فلسطینیوں کو آخری وارننگ دی جارہی ہے کہ اگر وہ جان بچانا چاہتے ہیں تو وہ جنوبی غزہ منتقل ہو جائیں، جو لوگ یہاں رہیں گے وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے حامی تصور کیے جائیں گے۔ عالمی ریڈ کر اس نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیوں کے باعث مجبوراً امدادی سرگرمیاں معطل کرنا پڑ رہی ہیں، عملے کو جنوبی غز منتقل کر دیا گیا ہے تا کہ ان کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے اور وہاں امدادی سرگرمیاں بھی جاری رکھی جاسکیں ، اس وقت ہزاروں لوگ نہایت خوفناک انسانی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ مزید برآں فلسطینی رہنما مصطفی برغوثی نے امریکی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کو بین الاقوامی فورس کے سپرد کر نا نو آبادیاتی منصوبہ ہے، اسرائیل ست انخلا کے بہانے جنگ دوبارہ چھیڑ سکتا ہے فلسطینی فریق کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے، ٹونی بلیئر کا کردار ناقابل قبول ہے، ٹونی بلیئر کی عراق جنگ میں جھوٹی کہانی ابھی بھی یاد ہے، امریکی صدر کا مکمل جھکا و اسرائیل کی طرف ہے۔ حماس کے رہنما اور ایک مذاکرات کا رغازی حمد نے دوحہ میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حماس نے غزہ میں بھاری قیمت ادا کی ہے، اس لیے اس کے واسطے ہتھیار ڈالنا اور منظر سے خارج ہو نا ممکن نہیں ہے، اگر فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو حماس کے ہتھیار فلسطینی فوج کے پاس جائیں گے۔
