Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 181

فلسطین اسرائیل جنگ

مشرق وسطیٰ میں جاری اس دہشت گردی نے مغربی ممالک کے بھیانک چہرے کو بالخصوص اور وہاں کی لبرل میڈیا کو بہت ہی بری طرح سے بے نقاب کردیا ہے اس جنگ میں فریق بن کر انہوں نے اچھے اور برے کا فرق ہی مٹا کر رکھ دیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنانے کی کوشش کی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ شکر خدا کا کہ اس سوشل میڈیا نے دنیا بھر کے عوام کو اس طرح سے ہر طرح کی صورتحال سے باخبر رکھا ہے کہ لوگوں کو اس صورتحال کا علم ہو گیا ہے اس لئے وہ اب متعصب مغربی میڈیا کے غلط اور گمراہ کن اطلاعات کے زد میں نہیں آرہے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت خود امریکہ اور برطانیہ میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے نکالے جانے والے وہ بڑے بڑی اجتماعات اور جلوس ہیں جس میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے شرکت کی جب کہ اس کے مقابلے میں اسرائیل کے حق میں نکالے جانے والے اجتماعات میں مشکل سے سو دو سو لوگوں سے زیادہ کسی نے شرکت نہیں کی، یہ سب عوامی شعور اور آگہی کے علاوہ حق اور سچ کی جیت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ کہ عوام نے اپنے ملکوں کی پالیسی اور میڈیا کی متعصبانہ رپورٹنگ کو مسترد کردیا ہے وہ حق و سچ جان چکے ہیں اس لئے وہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اس وقت سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا اصل کردار بھی اس وقت سامنے آیا جب وہ اسرائیل گئے اور وہ فرمانے لگے وہ اسرائیل میں امریکی اسٹیٹ سیکریٹری کے طور پر نہیں بلکہ ایک یہودی کے طور پر موجود ہیں، یہ کیسا سیاست دان ہیں اور یہ کیسا طرز عمل ہے، ان کی اس تنگ نظری یا پھر متعصبانہ طرز عمل کی وجہ سے وہ سعودی عرب اور مصر کی نہ تو حمایت اسرائیل کے لئے حاصل کر سکا اور نہ ہی وہ حماس کے خلاف ان دونوں ملکوں سے مذمت کروانے میں کامیاب ہو سکا۔
امریکی اخبارات نے جس طرح سے اس ساری صورتحال کو رپورٹ کیا ہے اس کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سب سے پہلے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو ان کی اوقات میں رکھتے ہوئے پہلے تو کئی گھنٹے انتظار کروایا اس کے بعد اگلے روز ان سے ملاقات کی اور کی درخواست سننے سے پہلے ہی سعودی ولی عہد نے غزہ کے معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوانے سے بات شروع کی اس کے علاوہ غزہ کا اسرائیلی محاصرہ ختم کرنے، پانی، بجلی، اور ایندھن کی فراہمی بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ یہ مطالبے پورے نہ ہونے تک انہوں نے اسرائیل پر کسی بھی طرح کی بات کرنے سے معذرت کرلی۔ اس طرح سے امریکی وزیر خارجہ کو مصر میں بھی بہت ہی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، وہاں سے بھی وہ ایک طرح سے ناکام اور نامراد لوٹے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق مصر میں امریکی وزیر خارجہ صدر سیسی نے ”یہودی“ ہونے کا بیان دینے پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آپ خود کو یہودی کہہ کر یہودیوں کا دکھ سمجھنے کے دعویدار ہیں جب کہ میں مصر میں یہودیوں کے درمیان پلا بڑھا ہوں، یہاں یہودی کسی ظلم کا نشانہ نہیں بنے، اس پر انٹونی بلنکن نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے یہ کہا کہ وہ یہاں مصر ایک یہودی کی حیثیت سے نہیں بلکہ حماس کے ظلم سے پریشان ایک انسان کے طور پر آئے ہیں جس کے جواب میں مصری صدر کو بھی یہ کہنا پرا کہ اس وقت اسرائیل حق دفاع سے بڑھ کر بے گناہ فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے اس طرح سے امریکی وزیر خارجہ کا مشرق وسطیٰ کا یہ دورہ پوری طرح سے ناکام ہو گیا۔ آزادانہ اور بے باک صحافت کے لحاظ سے اسرائیلی میڈیا مغربی میڈیا پر پوری طرح سے سبقت لے جانے میں کامیاب ہو گیا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا میں اس وقت واحد اسرائیلی میڈیا ہی ایسا ہے جو چور کو چور ڈاکو کو ڈاکو دہشت گرد کو دہشت گرد اور مظلوم کو مظلوم کہہ رہا ہے اس حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ پر خود اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس جنگ اور خون خرابے کا ذمہ دار صرف اور صرف اسرائیلی وزیر اعظم کی غلط ترین پالیسیاں ہیں وہ جو ملک کی سرحدوں کو پھیلانے اور فلسطین کی سرزمین کو اسرائیل میں شامل کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں، یہ ہی خون خرابے اور تباہی کی اصل وجہ ہے وہ حقائق پر مبنی رپورٹنگ جو برطانیہ اور امریکہ کے بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو کرنا چاہئے تھی وہ نہ کر سکے جو اسرائیلی میدیا کر گیا، میڈیا چاہے کہیں کا بھی ہو اس سچائی اور حقیقت کو جرات اور دلیری کے ساتھ منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر دنیا میں دائمی امن کا قیام سوائے دیوانے کے خواب کے اور کچھ بھی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں