ہمارے ملک میں فنکاروں کو ہر سال مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر سول سرکاری انعامات دیے جاتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ ترین صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی آرٹس کونسلیں، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وڑن، کلچرل ڈپارٹمنٹ وغیرہ بھی فن و ثقافت کے میدان اپنے اپنے طور پر کچھ نام وفاق کو بھیجتے ہیں۔ پھر وہ نام تین عدد ایوارڈ کمیٹیوں سے گزر کر شارٹ لسٹ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وفاق ان میں سے منتخب کرتا ہے۔ ان ناموں کا 14 اگست کو اعلان کر کے اگلے سال 23 مارچ کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جاتا ہے۔
صد افسوس کہ کئی ایک نامور فنکار اور تکنیک کار ابھی تک ان انعامات سے محروم ہیں۔ ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ جو شخص سورج چڑھا رہا ہے اس کا علم ہی نہیں! ایسا ہی ایک شخص محمد اعظم آج گمنامی میں ہے۔ ریڈیو پاکستان سے ستمبر 1965 کی جنگ میں کئی ترانے نشر ہوئے۔ آج کی نسل بھی ان گیتوں سے متعلق ملکہ ترنم نورجہاں، صوفی تبسم، جمیل الدین عالی اور کسی حد تک ان کے موسیقاروں سے واقف ہیں مگر ان کو ریڈیو سے پیش کس نے کیا؟
کوئی نہیں جانتا! کیا کبھی کسی نے ریڈیو پروڈیوسر ”محمد اعظم خان“ کا نام سنا! میں تمغہ امتیاز یافتہ موسیقار سجاد طافو کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے ریڈیو پاکستان کے ”بادشاہ گر“ سے ملاقات کروائی۔ اس تحریر کا مقصد اس نشست کا احوال بیان کرنا نہیں بلکہ قوم کی حالت پر ماتم کرنا ہے۔ خلوص اور محنت کس چڑیا کا نام ہے۔ ہمارے کارپرداز نہیں جانتے۔ کیوں کہ وہ تو کب کی اڑ چکی۔ بقول شہزاد احمد: ’جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی۔ ‘ آج کوئی ہے جو ملازمت کو فرض سمجھ کے کرے! پھر مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ ستمبر 1965 کے حوالے سے ریڈیو پاکستان سے میڈم نورجہاں، صوفی تبسم اور کئی ایک سازندوں کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ نہیں دیا تو محمد اعظم خان کو جس نے ”ان سب“ سے کام کروایا۔
پاکستانی فلمی صنعت کے نامور ہدایت کار، مصنف اور فلمساز، نگار، گریجویٹ اور بولان ایوارڈ یافتہ حسن عسکری بھائی کو پاکستان فلمی صنعت میں کام کرتے ہوئے 53 سال ہو گئے۔ ان کو ایک طرف تو اپنے شعبے کا ماہر بھی مانا جاتا ہے لیکن کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں انہیں کبھی اعلیٰ ترین سول اعزاز صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نہیں نوازا گیا۔ ان کے کام کی عوامی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی اور کوئی ایسی سماجی اور ثقافتی تنظیم نہیں جس نے انہیں نہ سراہا ہو۔
میرے ذرائع کے مطابق الحمرا آرٹس کونسل کے سابقہ عہدے دار کیپٹن عطاءنے حسن عسکری بھائی کو دو مرتبہ اس اعزاز کے لئے تجویز کیا تھا۔ اب یہ حسن اتفاق ہے کہ حسن عسکری صاحب نے اپنی فلموں کے ذریعے جن فنکاروں کو متعارف کروایا، ان میں سے بعض کو تو یہ تمغہ مل گیا اور جو فلم کے پیچھے کھڑا تھا اس کو محروم رکھا گیا۔ میری طرح اور لوگ بھی یہ پوچھنے میں حق بجا نب ہیں کہ جو اس تمغہ کے لئے نامزدگیاں بھیجتے ہیں کیا وہ فلم ڈائریکٹر حسن عسکری صاحب سے زیادہ تجربہ کار ہیں؟ یہ دعویٰ غلط بھی نہیں کہ عسکری بھائی بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں لیکن ابھی تک حسن عسکری صاحب کو ان کا صلہ نہیں مل سکا!
میں خوش قسمت ہوں کہ عسکری بھائی جیسے نامور لوگوں سے صحبت ہے۔ میرے حلقے میں بعض ایسے بھی مشہور لوگ رہے ہیں جو اس اعلیٰ ترین سول اعزاز سے محروم رہے اور دنیا سے ہی چلے گئے اور پھر انہیں بعد از مرگ یہ اعزاز دیا گیا۔ مثلاً ہمارے مسرور انور المعروف مسرور بھائی۔ ان کو بعد از مرگ ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے“ پر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اس وقت کے صدر فاروق لغاری صاحب نے دیا۔ 22 سال تک حکومت پاکستان کو علم ہی نہیں ہوا کہ یہ سدا بہار گیت کس نے لکھا!
کتنا اچھا ہو، اگر حسن عسکری بھائی جیسے گوہر انمول کی قدر دانی ان کی زندگی میں کر لی جائے! نصف صدی سے زیادہ محنت کرنے کے بعد اب یہ ممکن نہیں کہ وہ فلم انڈسٹری کو مستقل ذریعہ معاش بنائیں۔ یہ اعزاز جہاں ان کی عزت افزائی کا باعث بنے گا وہاں انہیں کچھ مالی آسودگی بھی فراہم کرے گا۔
ان سنہری لوگوں میں اداکارہ صابرہ سلطانہ بھی شامل ہیں جن کا فنی سفر اشتہار میں کام کرنے سے شروع ہوا۔ پھر ریڈیو پاکستان کراچی سے ڈرامہ بھی کیا۔ ان کی پہلی فلم ”انصاف“ (1960) سلور جوبلی ہوئی۔ اس وقت تاریخی فلمیں بہت بنتی تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ صابرہ سلطانہ شہزادی یا ملکہ کے کردار کے لئے بہت موزوں ہیں۔ انہوں نے ہیروئن کے ساتھ ٹائٹل رول بھی ادا کیے۔ اپنے عروج میں انہیں ”ملکہ حسن“ کا خطاب دیا گیا تھا۔
60 سال سے زیادہ فن کی خدمت کرنے والی ہمارے ملک کی اس نامور فلم اور ٹیلی وڑن فنکارہ کو حکومت پاکستان نے ابھی تک تمغہ حسن کارکردگی سے نہیں نوازا۔ یہ ہر طرح سے اس تمغے کی نہ صرف اہل بلکہ حق دار ہیں۔ میری الحمرا لاہور، پی این سی اے، کلچر ڈپارٹمنٹ اور وزارت اطلاعات و نشریات کے ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے یہ نیک کام کر کے شکریہ کا موقع دیں۔ فنکاروں کی ان کی زندگی میں قدر کیجئے!
ویسے ہمیں یہ ہی نہیں معلوم کہ فنکاروں کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دینے کا معیار کس کو بنایا گیا ہے؟ میری رائے میں اس سب سے بڑے ایوارڈ کا معیار صرف کار کردگی کی مدت ہونا چاہیے۔ کہ کسی فنکار نے کم از کم 20 سال اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ فعال فنکار سب کی نظروں میں ہوتے ہیں ان کا کام، ان کا نام اور ان کی تصاویر سماجی رابطوں میں تواتر سے آتی ہیں۔ نیز اعلی حکام کی محافل انہیں مزید قربتیں عطا کرتی ہیں۔ لیکن وہ فنکار جو اپنی زندگی کا بہترین حصہ فن کی خدمت میں لگا کر اب گوشہ نشین ہیں انہیں ان کا حق ضرور ملنا چاہیے۔ آرٹس کونسلوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فنکاروں کے دو گروپ بنا لیں : ایک فعال فنکار دوسرے غیر فعال لیکن اپنے زمانے کے نامور فنکار۔ تا کہ ہر دو طرح کے فنکاروں کو ان کا حق مل سکے۔
