Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 192

قومی غیرت کے بعد اب آزادیءاظہار رائے بھی داﺅ پر؟

ملک میں قومی غیرت اور خودداری کے بعد اب آزادی اظہار رائے کا تقدس بھی داﺅ پر لگ گیا ہے، ایک کے بعد ایک مجھے ہوئے صحافی کو ریاستی اداروں کی لاقانونیت اور غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایاز میر جیسے کارواں صحافت کے ساتھ لاہور میں جو کچھ کیا گیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو بھی کچھ کیا جارہا ہے وہ جنگل کے قانون کی پوری طرح سے منظرکشی کررہا ہے یعنی چور کو چور کہنا، سازشی کو سازشی کہنا یا پھر غدار کو غدار اور میر جعفر کو میر جعفر کہنا کتنا مشکل ہو گیا ہے جسے کوئی یہ نہیں بلکہ پاکستان کے مقتدر اداروں کو ماں، بہن کی گالیاں دے رہا ہوں، اتنا شدید اور بھیانک ردعمل آتا ہے کہ اس کی نظر تو کسی مارشل لاءدور میں بھی ہیں ملتی یعنی مہنگائی کے پہاڑ عوام پر گرانے والے مہنگائی کے شکار عوام کو احتجاج کی شکل میں انہیں رونے کا بھی حق نہیں دیا جارہا ہے بلکہ ان کی سواگت آنسو گیس کے شیلوں کی برسات سے کرتے ہیں، آخر پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟ پاکستانی اداروں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں یا پھر بندھے ہوئے ہیں جو وہ حرکت میں نہیں آرہے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ اس ساری صورتحال پر کوئی ازخود نوٹس لے رہی ہے۔
ملک تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے اور ملک کی سلامتی سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے لکھاری اور مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کی طرح سے بے باک بولنے والے صحافی ایاز میر اس کے علاوہ عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم اور ارشد شریف کے خلاف ریاستی اداروں کی کارروائیاں قابل افسوس ہیں وہ اس طرح سے کرکے سچائی کو دبانے اور چھپانے کے بجائے اسے پھیلانے اور خود اپنے آپ کو بے نقاب کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور پہلی بار قوم کے سامنے یہ بات کھل کر واضح ہو گئی ہے کہ چور نہیں بلکہ بھاڑ ہی فصل کھا رہی ہے۔ پہلی بار حکومتوں میں نقب لگانے والے پوری طرح سے بے نقاب ہو گئے ہیں اسی لئے بہتر یہ ہے بقول عمران خان کے جس نے صورتحال کو خراب کیا ہے وہی اب اس کا تدارک کرے اور وہی صورت حال کو اب بہتر بنائے لیکن لگ ایسے رہا ہے کہ وہ قوتیں صورتحال کو بہتر کرنے کی بجائے ملک کو سری لنکا جیسی صورتحال کی جانب لے جانے کے مشن پر کارفرما ہیں۔ عوام پر مہنگائی کے ایک کے بعد ایک بم گرائے جارہے ہیں، انتخابات میں دھاندلی کے لئے ریاستی ادارے پوری طرح سے متحرک ہو چکے ہیں، خودداری اور خودمختار خارجہ پالیسی کی پرچار کرنے اور عوام کو اصل صورت حال سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھنے والے دلیر اور محب الوطن صحافیوں کے خلاف پھینٹی لگانے کے بعد ان کی زبانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کا خوفناک مشن شروع کردیا گیا ہے اور اس مشن کے نتیجے میں بہت سے صحافی غائب بھی کروائے جا سکتے ہیں اور بہت سو کو دوسرے جہاں منتقل کروانے کا بھی خوفناک پلان بنائے جانے کی اطلاع ملی ہے اس لئے بہتر ہے کہ یہ صحافی بشمول ایاز میر کے خیبرپختونخواہ عارضی طور پر منتقل ہو جائیں ورنہ اس خطرناک اور فیصلہ کن صورتحال میں مخالفین سے کسی بھی طرح کے گری ہوئی حرکت کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
میرے پاس اپنے ذرائع سے انتہائی خوفناک اطلاعات صحافیوں سے متعلق آرہی ہیں کیونکہ اس وقت بعض یوٹیوبر ملک کے سلامتی اداروں کے اپنے بقاءکے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں اور ملکی عوام میں خود سیکیورٹی فورسز کے لئے نفرتیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ عوام میں اپنے خلاف بڑھنے والی نفرتوں کا ذمہ دار اپنے طرز عمل کو ٹھہرانے کے بجائے اس کا قصور وار عمران ریاض خان، ارشد شریف، سمیع ابراہیم اور ایاز میر کو ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ پوری قوم جان چکی ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں امریکہ سے زیادہ گھر میں موجود میر جعفروں اور میر صادقوت کا کردار ہے اور انہیں ننگا کرنے پر ہی تو ایاز میر پر حملہ کروایا گیا کہ انہوں نے یہ سچ بولنے کی ہمت کیوں کی۔۔۔؟ کیوں عمران خان کو امریکہ کی مخالفت کے بجائے گھر میں موجود میر جعفروں اور میر صادقوں کے پیچھے لگا دیا، یہ وہ سچ ہے جس سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے مگر وہ پھر بھی صحافیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں نشان عبرت بنانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس خانہ جنگ کی صورتحال میں مداخلت کرے یہ ہی حالات اور واقعات کا تقضا ہے، اسی میں پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں