Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
لوھاری چال 17

لوھاری چال

ایک ملاقات ہی تو تھی جسے اتنا بڑا ہوّا بنا لیا گیا تھا، یہ ملاقات اگر پہلے ہی کروالی جاتی تو کتنا اچھا ہوتا، خواہ مخواہ عالمی سطح پر ملک کی بدنامی تو نہ ہوتی۔۔۔ دشمنوں کو افواہ ساز فیکٹری چلوانے کا موقع تو نہ ملتا۔ خیر ملاقات تو ہو گئی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملاقات میں رکاوٹ کون بن رہا تھا؟ کس کے حکم پر گریڈ 18 کا ایک جیلر اتنی بڑی عوامی پارٹی کے لئے فرعون بن گیا تھا۔ یا پھر بنا دیا گیا تھا؟ حکمرانوں کی جانب سے یہ مشہور کروادیا گیا ہے کہ کوئی کرنل اڈیالا جیل میں پوزیشن لئے ہوئے ہے ان ہی کا حکم چلتا ہے پنجاب حکومت کا سارے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ دوسرے معنوں میں شریفوں نے اس ساری سازشی اور انتقامی کارروائیوں سے اپنی جان نکالتے ہوئے ملبہ اسٹیبلشمنٹ کے سر ڈال دیا ہے اور یہ تا اثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے اس سے حکومت کا کوئی سروئے کار نہیں۔۔۔ یہ ان کا ایک سیاسی بیان یا پھر سیاسی چالبازی ہے دوسری طرف کے لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف سارے کے سارے مقدمات ہو یا پھر عدالتی کارروائیاں ہو یا پھر جیل ملاقاتیں نہ کروانا اور سختی کرتا یہ حکومت کا اپنا ذاتی فیصلہ یا پھر ذاتی انتقام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اتنا کبھی بھی کسی کا پیچھا نہیں کرتی ان کی کارروائیاں صرف اور صرف حکومت سازی تک ہی محدود رہتی ہیں، عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان اور ان کی پارٹی سے ہر طرح کا تعلق واسطہ ختم ہو گیا تھا اس کے بعد عمران خان یا پھر ان کی پارٹی کے ساتھ پنجاب یا اسلام آباد ڈی چوک میں جو کچھ بھی ہوا اس کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر ذمہ دار حکومت اور ان کے ادارے ہیں اس دوران وزیر داخلہ محسن نقوی بہت زیادہ متحرک رہے پنجاب پولیس پنجاب حکومت سب کے سب کارروائیاں کرتے رہے وہ سب کے سب حکومت سے ہی وقتاً فوقتاً ہدایات لیتے رہے اور ان کے حکم پر ہی وہ ہر طرح کی کارروائیاں کرتے رہے جس میں لاٹھی چارج شیلنگ کے علاوہ براہ راست گولیاں چلانے کے بھی احکامات شامل ہیں یہ سارے فیصلے پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے اپنے تھے کیونکہ عمران خان اور ان کی جماعت کی وجہ سے نواز شریف کی پوری کی پوری سیاست ہی زیرو ہو کر رہ گئی ہے اور وہ 8 فروری 2024 کے الیکشن کے بدترین نتائج کا چن چن کر بدلہ عمران خان اور ان کی جماعت سے لے رہے ہیں۔ شریف برادران اس طرح سے اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی بقاءتحریک انصاف اور عمران خان کے خاتمے میں ہی مضمر ہے اور وہ اپنی بقاءکے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے اپنے ان گھناﺅنے حرکتوں کی شکل میں تیار دکھائی دے رہے ہیں لیکن وہ یہ سارے گھناﺅنے ہتھکنڈے ماسک لگا کر کررہے ہیں یعنی وہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے ان ظلم و جبر کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرا رہے ہیں تاکہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ آئین میں لڑتی رہے ان دونوں کے آپس میں لڑنے سے فائدہ صرف شریفوں کو ہی ہو گا کیونکہ وہ ان دونوں کو اپنے لئے خطرہ ہی خیال کرتے ہیں اس وجہ سے ”لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کے رسوائے زمانہ فرنگی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے انہیں لڑوایا جارہا ہے دونوں میں بدگمانیاں پیدا کی جارہی ہیں، دونوں میں نفرتیں بڑھائی جارہی ہے شریفوں کی اس بدبو دار اور زہریلی سازشوں کا کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ اور پالیسی میکرز کو فہم و ادراک ہو چکا ہے جس کی وجہ سے دونوں میں تھوڑا سا فاصلہ پیدا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک نوٹی فکیشن کا اجراءنہیں ہو سکا ہے کاش کے عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے سمجھ دار لوگوں پر بھی شریفوں کی یہ بدبودار اور زہریلی حقیقت واضح ہو جائے کے پاکستان کے اصل دشمن کون ہیں؟ تو سارے کے سارے پریشانیاں اور مشکلات ہی ختم ہو جائیں اور کسی حد تک غلط فہمیاں بھی دور ہو جائیں عمران خان کو دوست اور دشمن کو سمجھنا ہو گا تب ہی وہ اس مشکل سے خود کو اور قوم کو نکلوا سکیں گے اسی حکمت میں پاکستان کی سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں