پاکستان میں ایک سالانہ عرس کی طرح ایک دفعہ پھر یوم کشمیر اور کشمیریوں کی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے جلسے، جلوس اور تقاریر کا دن منا لیا گیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بنیاد تو پاک و ہند کی تقسیم کے وقت ہی ڈال دی گئی تھی۔ تاریخ کے مطابق افغان بادشاہ نادر شاہ درانی نے 1752ءمیں کشمیر کو فتح کیا۔ 1819ءمیں پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ ڈوگرہ خاندان نے 1840ءمیں کشمیر پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 1846 میں انگریزوں نے کشمیر کو فتح کرنے کے بعد اسے پھر ڈوگروں کو بیچ دیا جو 1947ءتک کشمیر پر حکومت کرتا رہا۔ اس وقت کشمیر کا 55 فیصد حصہ بھارت کے پاس، 30 فیصد حصہ پاکستان کے پاس اور 15 فیصد چین کے پاس ہے۔
تقسیم بھارت کے وقت ہندوستان میں موجود تمام ریاستوں کو یہ اختیار دیدیا گیا تھا کہ وہ اپنے عوام کی اکثریت اور ان کی منشا کے مطابق یہ فیصلہ کریں کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیں گے۔ 70 فیصد مسلم اکثریتی آبادی رکھنے والے کشمیریوں کو پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش تھی مگر کشمیر کا ہندو راجہ نے فیصلہ کرنے میں تامل سے کام لیا۔ مورخین کے مطابق وہ دراصل کشمیر کی آزاد حیثیت کا خواہاں تھا۔ 1947ءمیں ہی ریاست جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔ قائد اعظم کو یہ امید تھی کہ ہندوستان میں واقع حیدرآباد کی ریاست کے علاوہ کشمیر بھی پاکستان میں شامل ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اور کشمیر میں خانہ جنگی کا آغاز ہو یا جس میں درپردہ پاکستانی فوج کی غیر سرکاری طور پر اعانت جاری رہی جس کے نتیجے میں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق پر رضا مندی کا اعلان کرتے ہوئے دستاویز پر دستخط کر دیئے مگر بھارت سے یہ الحاق اس شرط پر قائم ہوا تھا کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے کشمیر میں رائے شماری کروادی جائے گی اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اسی حق خود اختیاری کے تحت کردیا جائے گا۔ بھارت نے اس الحاق کے فوراً بعد اپنی فوجیں کشمیر میر اتار دیں جس کے نتیجے میں پہلی پاک بھارت جنگ عمل میں آئی۔ اپنی جغرافیائی مقام کی بدولت پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی کی نظر کشمیر سے الحاق پر تھیں۔
1948ءجنوری میں ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحہ کے سامنے رکھا جہاں ایک قرارداد کے ذریعے جنگ بندی کروائی گئی اور رائے شماری کروانے کی ہدایت کی گئی مگر یہ کارروائی عمل میں نہیں آسکی۔ بھارت نے اپنے آئین میں 1950ءمیں منظور کیا کہ کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دی جائے گی اور یہ واضح کیا کہ کشمیر کی ریاست کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے قوانین کا اطلاق کرنا ہو گا۔ سوائے مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق۔ 1951ءمیں ایک دفعہ پھر اقوام متحدہ میں کشمیر کو زیر بحث لایا گیا اور تجویز کیا گیا کہ پاک بھارت کے مشترکہ فوج کی نگرانی میں رائے شماری کی جائے اور کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت کے استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کا اختیار دیا جائے مگر ہندوستان اس پر راضی نہیں ہوا اور یہ معاملہ پھر التواءمیں ڈال دیا گیا۔
1952ءمیں شیخ عبداللہ کی بغاوت کے جرم میں گرفتاری کے بعد ہندوستان نے کشمیر ریفرنڈم کی حامی بھری لیکن یہ وہ ہی وقت تھا جب امریکہ نے پاکستان سے معاہدہ کرکے اسے فوجی اور اقتصادی امداد کا آغاز کیا جو بھارت کے لئے باعث تشویش بنا اور اس نے ریفرنڈم سے انکار کردیا۔
1965ءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر کشمیر کے مسئلے کو لے کر جنگ ہوئی مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی پھر 1971ءمیں پاکستان کے دولخت ہونے کے شیخ عبداللہ نے مایوس ہو کر بھارت سے الحاق کا اعلان کیا۔ 1984ءمیں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کرلیا۔ 1999ءمیں صدر مشرف کے زمانے میں کارگل کی جنگ چھیر دی گئی مگر پاکستانی حکومت نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اس جنگ کو بھی بے نتیجہ ہونے پر انحصار کیا۔
2019ءمیں ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت جو آرٹیکل 370 کے تحت نافذ کی گئی تھی کو ختم کرکے اس ریاست کو بھارتی یونین میں ضم کردیا۔ اس حیثیت کے خاتمہ کے ساتھ ہی ظلم و تشدد کا ایک نیا دور وجود میں آیا۔ ہندوستان کے کشمیری مسلمانوں پر مظالم اور نا انصافیوں کی ایک نئی داستان رقم کرنے کی ٹھان لی۔ 1947ءسے لے کر موجودہ دور تک کشمیریوں کی زندگیاں ہولناک حالات سے گذری ہیں۔
پاکستان اپنی تمامتر ہمدردیوں کے دعوﺅں کے باوجود کسی مضبوط حکمت عملی کو اپنانے سے معذور نظر آتا ہے۔ ”کشمیر“ پاکستان میں صف اوّل کے تنازعات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ ہر نئی حکومت اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی ایک کشمیر کمیٹی تشکیل دیتی ہے مگر تاحال یہ کمیٹی کسی ایسی پالیسی کو سامنے نہیں لا سکی جس کے تحت ہندوستان کے ساتھ اس مسئلہ پر کوئی مربوط لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے۔ آزادی کی اس جنگ میں کشمیریوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ جس کا سہرا صرف اور صرف کشمیریوں کے حصہ میں آتا ہے۔ پاکستان صرف بیانات کے اور کچھ اختیار کرنے کی کوئی صورت نہیں دکھا سکا ہے۔ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ اب تک صرف ایک کھوکھلے نعرے کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے اپنے داخلی غیر جمہوری حالات اسے ایک کمزور غیر جمہوری ریاست کے طور پر دکھا رہے ہیں۔
کشمیریوں کو اب یہ احساس ہو چکا ہے کہ آزادی کی یہ جنگ اسے اکیلے ہی لڑنی ہو گی۔ بظاہر یہ احساس ہونے لگ اہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرانے کے لئے کوشاں نہیں ہے اور حکومتیں اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر اس کے متعلق تجاویز پر آمادہ ہیں۔ کارگل کے موقع پر اس وقت کے وزیر اعظم کا امریکی حکومت کے سامنے اپنی ہی فوج کے سلسلے میں معذرت کرنا ایک مثال کے طور پر سامنے آتا ہے۔ مشاہدات یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ ہر پاکستانی حکومت صرف اس مسئلہ کو زندہ ضرور رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاکستانی عوام کو اس میں الجھا کر مصروف رکھ سکے۔ اس کا اندازہ اب کشمیریوں کو بھی بہت حد تک ہو چکا ہے کہ انہیں کسی طرف سے کسی سہارے کی امید نہیں۔ پاکستان صرف اسی پر شادیانے بجا لیتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل میں کشمیر کا تذکرہ کرلیا ہے۔ مسئلے کا حل کوئی ان کے پاس نہیں۔ اور نہ ہی یہ کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ابتک صرف بیانات تک رہا ہے اور شاید مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے کہ یہ مسئلہ حکومتی کمیٹیوں اور خارجی امور کے نمائندگان کی پرورش کرتا ہے جہاں سے کشمیر کے لئے کوئی مثبت لائحہ عمل کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ہاں ناکام مصروفیت اس مد میں ضرور رہتی ہے۔
222











