Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 422

معیشت۔ انسان بمقابلہ کرونا

اگر یہ کہا جائے کہ دو عالمی جنگوں کے بعد اگر کسی نے پوری دُنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے تو وہ کرونا ہے۔ کرونا ایک ایسا نظر نہ آنے والا دُشمن ہے جو معیشت کو بالخصوص اور انسانوں کو بالعموم اپنا نشانہ بناتا جا رہا ہے۔ جدید ہتھیاروں، میزائلوں اور دوسرے ایٹمی جنگی ٹیکنالوجی سے مالا مال ممالک بھی اپنے اس نظر نہ آنے والے دُشمن کے آگے نہ صرف بے بس بلکہ سہمے سہمے اور ڈرے ڈرے سے نظر آرہے ہیں، ہر ایک کی گیڈر بھبکیاں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ کرونا نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آج ہر جگہ صرف کرونا کا ہی چرچا ہو رہا ہے، دُنیا کی ساری سیاست ساری معیشت اور ساری اخلاقیات اس کرونا کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس کرونا نے فی الحال دُنیا پر ایک جمود طاری کر دیا ہے۔ معیشت کا پہیہ پوری طرح سے رُک چکا ہے۔ پرہیز نے علاج کی جگہ لے لی ہے، گاڑی کو بریک کے بجائے ایکسیلیٹر سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے؟ کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی ہیں، نہ تو کسی کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی ٹوکا جا سکتا ہے مگر کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کون ہے کرونا کے پشت پر؟؟؟
مانا کہ بہت سارے معاملات کی ابتداءخود انسانوں سے ہو جاتی ہے مگر بعد میں وہی معاملات خود ان کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ اور چاہنے کے باوجود وہ انہیں کنٹرول نہیں کر پاتے۔ کرونا وائرس کے معاملے میں بھی کچھ اسی طرح سے ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کرونا کو اپنے اشارے پر نچوانے والے خود کرونا کے اشاروں پر سہمے سہمے سے ناچ رہے ہیں جن ملکوں میں کرونا نے کثرت سے اپنے جوہر دکھلانا شروع کر دیئے ہیں انہیں دیکھ کر سمجھنے والے بہت کچھ سمجھ گئے۔ اور اس کرونا کی شکل میں آنے والی اس آفت میں مضمر اس پیغام کو بھی سمجھ گئے جو اس طرح کی آفتوں کی صورت میں بھجوایا جاتا ہے اسی وجہ سے اٹلی کے وزیر اعظم نے اپنے ملک میں کرونا سے ہونے والی تباہی پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ہم ہار گئے اب کرونا کی تباہی سے اوپر والا ہی بچا سکتا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ دنیا کس جانب بڑھ رہی ہے، کسی کو نہیں معلوم؟ کرونا کی اس ہولناک تباہی سے وہی لوگ بہت زیادہ خائف اور ڈرے ہوئے ہیں جو اس دُنیا کو ہی دارالامان خیال کرتے ہیں وہ اسی زندگی کو اپنی کل کائنات سمجھتے ہیں اس لئے وہ اسے کھونا نہیں چاہتے۔ اس لئے کرونا کے اس تباہی میں ان کے احتیاطی تدابیر دیکھنے والے ہیں لیکن افسوس اس کے باوجود تباہی وہیں زیادہ ہو رہی ہیں۔
میرے لکھنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ اس کرونائی تباہی سے بچنے کے لئے احتیاط نہ کی جائے، احتیاط ضرور کی جائے مگر یہ ذہن میں ضرور رہنا چاہئے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے جو اپنے وقت سے پہلے کسی صورت نیند آ سکتی چاہے کرونا وائرس آ جائے یا کوئی اور آسمانی آفت کیوں نہ آ جائے اس لئے اگر اس یقین پر کرونا سمیت ہر آنے والی مشکل کا سامنا کیا جائے تو انسان اسے شکست دے سکتا ہے لیکن اگر ان آفتوں کو ہی سب کچھ مان لیا جائے تو اس طرح کا انسان اس آفت کا شکار ہونے سے پہلے اس کے خوف سے ہی ہلاک ہو جاتا ہے اور آج کی دنیا کرونا وائرس کی شکل میں آئی ہوئی اس آفت سے کچھ اسی طرح سے نمٹ رہی ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی با آسانی کرونا کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
کسی نے درست ہی کہا ہے ”بے فکری ہزار نعمت ہے“۔ زیادہ تر فکرات ہی انسانوں کے بربادی کا باعث بن جاتے ہیں۔ پوری دُنیا اس کرونا کے عذاب سے دوچار ہے جن مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں سے اس طرح کے آفات سے بچنے کے لئے اجتماعی طور پر دعا کی شکل میں کچھ کیا جا سکتا تھا انہیں تو پہلے ہی اس کرونا کے خوف سے بند کرادیا گیا ہے لیکن اب دُنیا بھر کے ممالک اپنے عوام کو اس تباہی سے بچانے کے لئے ہر طرح کے اقدامات کررہے ہیں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے ان کے کھانے پینے کے سامان کو گھروں تک پہنچانے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ بلوں کی شکل میں لوگوں کی کی جانے والے ادائیگیوں کو چھ ماہ کے لئے روک دیا گیا ہے اور لوگوں کو گھروں پر رہنے کی وجہ سے ان کا گزارہ الاﺅنس بھی جاری کردیا گیا ہے۔
پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس سلسلے میں بہت سارے اعلانات کئے ہیں اور وہ انہیں عملی جامہ بھی پہنا رہے ہیں جب کہ اس طرح کی صورتحال میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو وزیر اعظم نے وارننگ دے دی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں صورتحال کافی حد تک کنٹرول میں ہے۔ کرونا کی روک تھام کے لئے چین کا تعاون بھی مثالی ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ چین نے اپنے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بمعہ جدید آلات کے پاکستان بھجوائی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملکی ڈاکٹروں کو چین کے طرز پر اقدامات کرکے کرونا وائرس سے ہونے والی تباہی کو روکنے کی ہدایات دی ہے۔ کرونا وائرس کے سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کا بار بار قوم سے خطاب اور ان کے حوصلے بڑھانا بھی قابل تعریف ہے۔ وہ ایک بہترین موٹی ویٹر کی طرح سے ملکی عوام کو کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے تیار کررہے ہیں وہ انہیں یہ باور کروا رہے ہیں کہ کرونا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کھانے پینے کی اشیاءکی گھر میں ذخیرہ کرنے کی۔ اس طرح سے وزیر اعظم وہی کام کررہے ہیں جو اس طرح کے آفات سے نمٹنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ملکی عوام کو چاہئے کہ وہ وزیر اعظم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں، گرمی کی شدت آتے ہی یہ کرونا اس طرح سے غائب ہو جائے گا جس طرح سے سورج کے بادلوں میں چھپنے سے انسان کا سایہ غائب ہو جاتا ہے۔ اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ کرونا کو سمجھتے ہوئے اس سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں ہر کسی کی زندگی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں