جرمن اخبار فرینکفرٹر الگمائنے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے غیر معمولی بہادری اور جرات مندی اور ایک خودمختار ملک کے وزیر اعظم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کئے جانے والے چار ٹیلی فون کالیں مسترد کردی۔ جو ان دنوں میں وقفے سے کی گئی تھیں جب امریکی انتظامیہ نے انڈیا پر 50 فیصد درآمدی ٹیرف عائد کیا امریکی صدر نے اس موقع ر چار بار ٹیلی فون کرکے بھارتی وزیر اعظم مودی سے بات کرنے کی کوشش کی جسے خود مودی نے ٹھکرا دیا۔ جس کا اس وقت خود امریکہ میں بہت چرچا ہو رہا ہے اس پر خود امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ صحافی مائیکل نے کہا ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے کہ ٹرمپ نے مودی سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی اور وہ ٹرمپ سے بات کرنے پر تیار نہیں تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت سے حکومت کا تعلق اور دونوں رہنماﺅں کا ماضی کا مضبوط تعلق کسی بحران سے گزر رہا ہے۔ ویسے اسی طرح کا ردعمل ہر اس آزاد اور خودمختار ملک کو کرنا چاہئے جس پر اسی طرح سے درآمدی ٹیرف عائد کرکے ان ممالک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے یہ ایک طرح سے اکنامک وار ہے جس کی شروعات خود امریکہ یعنی سپر پاور نے کرلی ہے اسی طرح کا منہ توڑ ردعمل خود چین کی جانب سے پہلے ہی آچکا ہے اور روس بھی جوابی وار کر چکا ہے اب اس بڑھتی ہوئی اکنامک وار کا مقابلہ کرنے یا پھر جوابی حملہ کرنے کے لئے عالمی منڈی سے تیل سمیت تمام تجارت ڈالروں کے بجائے گولڈ کے ذریعے شروع کی جائے۔ ڈالروں کے ذریعے تمام تر خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیا جائے بلکہ اس پر تجارت نہ کی جائے، یہ بالکل اسی طرح کا جوابی وار ہو گا جیسے گاندھی نے سودیشی مال کے بائیکاٹ کی تحریک چلائی تھی وہ تحریک اتنی کامیاب اور خطرانک ثابت ہوئی کے اس تحریک نے انگریزوں کی تین سو سالہ حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی اور انہیں بوری بسترا سمیٹ کر بھاگنا پڑا، اب دنیا کی سپرپاور کو سبق سکھانے کا اس کے علاوہ اور کوئی حربہ ہی نہیں جس دن ڈالروں کی یہ بے توقیری شروع کردی گئی یقین جانیے اسی روز سے امریکہ کا زوال شروع ہو جائے گا۔ کیونکہ امریکہ اپنے ان کاغذی ڈالروں کے ذریعے اس وقت دنیا پر حکمرانی کررہا ہے، کاغذوں کے ذریعے حقیقی کرنسی گولڈ کو جمع کررہا ہے اس لئے اب وہ وقت آگیا ہے کہ دنیا گولڈ کے ذریعے تجارت کرے اس کے بغیر اس لعنت سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں کیونکہ یہ ون مین شو ہے جو اس وقت دنیا کو اکنامک وار کے آگ میں جھونک رہا ہے۔
انڈیا دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے ان کے وزیر اعظم کا اس طرح کا ردعمل سے وہاں کی عوام کے مائنڈ سیٹ کا ہی پتہ چلتا ہے کہ امریکی ٹیرف کے بعد خود انڈین عوامج میں امریکہ کے خلاف کتنی نفرت پیدا ہو گئی ہے اور ویسے بھی امریکہ کے لئے یہ مشورہ ہے کہ وہ کسی کا دوست نہیں۔۔۔ وہ ابن الوقت موقع پرست ہے، اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے، وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بھی بنا لیتا ہے اور کام نکلنے کے بعد وہ طوائفوں کی طرح سے آنکھیں پھیر لینے کا عادی ہے جو ممالک امریکہ سے دوستی یا پھر اچھے تعلقات پر نازاں ہیں وہ بے وقوف ہیں اور ایک طرح سے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور وہ اگر ان تعلقات کو لے کر مطمئن ہیں کہ اب ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لئے کہ امریکی مائی باپ ان کے ساتھ ہے تو وہ ایک طرح سے اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں کھدوا چکے ہیں بس اس میں انہیں پھینکنے کی دیر باقی ہے اس کی ایک دو نہیں لاتعداد مثالیں موجود ہیں اس لئے اس طرح کے ممالک سے تو دور رہنے میں ہی عافیت ہے مگر دنیا کے کاروبار چلانے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لین دین کے لئے امریکہ کی ضرورت پیش آتی ہے یا پھر دوسرے معنوں میں امریکہ ان مالیاتی آرگنائزیشن کو بلیک میلنگ کے ٹولہ کے طور پر استعمال کرتا ہے لیکن کچھ بھی ہو اپنی خودمختاری کو ہر معاملے پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کا یہ ردعمل بہت ضروری تھا، ٹرمپ کی بند آنکھیں کھولنے کے لئے۔۔۔ دوسرے ممالک کو ان کی تقلید کرنا چاہئے۔
179











