Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 184

نیا سیاسی ڈھانچہ یا پرانی شراب

دیکھ رہا ہوں یہ کھیل کیا ہے، دکھ اور سکھ کا میل یہ کیا ہے۔برسوں پرانا یہ فلمی گانا آج مجھے پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے اچانک یاد آگیا۔ آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس پر میرا دل خون کے آنسو رونے کو چاہ رہا ہے، آج کی سیاسی صورتحال پر ”نئی بوتل پرانی شراب“ والی کہاوت بھی کسی حد تک پوری اتر رہی ہے، جس طرح کی سیاسی صورتحال نگراں حکومت کے بنائے جانے کی صورت میں بنائی جارہی ہے اس سے قوم کو کوئی زیادہ اچھی توقعات رکھنے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں۔ ان سے بہتری کی امیدیں رکھنا دیوانے کے خواب کے مترادف ہے، پہلے تو خود نگران وزیر اعظم کا کہیں سے نمودار ہونا ہی ایک اچھنبے سے کم نہیں، اس کے بعد سونے پہ سہاگہ پاکستان کے سب سے زیادہ تباہ حال رشوت اور لاقانونیت کی دلدل میں پھنسے صوبہ سندھ کے نگران حکومت کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہے، وہ کس طرح کے نگران وزیر اعلیٰ آگے چل کر ثابت ہو سکتے ہیں اس سے قطع تعلق جن کی مشاورت سے یا جن کے دباﺅ پر انہیں نگران وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے ان کی وجہ سے ہی اس پورے نگران سیٹ اپ کی شفافیت اور ان کی غیر جانبداری پر ایک دو نہیں بلکہ لاتعداد سوالات کھڑے ہو گئے ہیں کہ یہ نیا سیاسی ڈھانچہ جو کھڑا کیا جارہا ہے اس کا ریمورٹ کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہوگا اور ان کا منشور کیا ہوگا، وہ کس طرح کی طرز حکمرانی کریں گے؟
اب تک سوائے غیر یقینی صورتحال کے اور کچھ بھی کسی کو نظر نہیں آرہا ہے جو اس سسٹم کا حصہ بن رہے ہیں، خود انہیں بھی ابھی تک سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کا حسن انتخاب کس طرح سے ہوا اور ان سے کس طرح کا کام لیا جا سکتا ہے۔ غرض اس نئی نگراں حکومت میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو ابھی تک کسی طرح کی کوئی جگہ نہ دینے سے یہ نیا سیاسی دھانچہ پہلے ہی اپنی شفافیت اور غیر جانبداری کھو کر خود پر انتقام کا لیبل چسپاں کر چکا ہے اور ابھی تک عوام سے زیادہ خود اس سیاسی ڈھانچے کا حصہ بننے والوں کو اچھی طرح سے علم نہیں کہ انہیں لانے کا مقصد واقعی الیکشن وہ بھی شفاف کروانا ہے یا پھر جام صادق والے فارمولے پر بھی عمل درآمد کرتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانا ہے۔
اسی لئے نگران سیٹ اپ میں لائے جانے والے بھی ذہنی کرب میں مبتلا ہیں کہ ان سے آخر کس طرح کا کام لینا ہے جس کی اتنی زیادہ پردہ داری کی جارہی ہے، پاکستان کے عام لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ وہی پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال دی گئی ہے ایک طرح سے وہی پی ڈی ایم کی حکومت چل رہی ہے اس ہی کابینہ کو نگران کا نقاب لگا دیا گیا ہے جس طرح کے وزراءکے نام ابھی تک سامنے آرہے ہیں اس سے تو یہ ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ نوٹنکی کا کھیل تماشاہ پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہا ہے اس کے علاوہ جس روایتی انتقامی کارروائی کرتے ہوئے حکومتی مشینری کا استعمال عمران خان جیسے ایک قد آور عالمی شخصیت کے خلاف دو سو سے زائد مقدمات درج کرکے انہیں پچھلے دو ہفتوں سے ایک ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے اس سے حکومت پاکستان اور ریاست کی رہی سہی کسر اس کے وقار کے انصاف اور اخلاقیات کی نکل گئی، ان مقدمات اور اس کے نتیجے میں کئے جانے والے اقدامات سے پاکستان کا نظام قانون اور نظام عدل پوری طرح سے دنیا والوں پر آشکارا ہو گیا کہ پاکستان میں پولیس کسی کے خلاف بھی جتنی چاہے ایف آئی آر درج کرکے انہیں ساری زندگی کے لئے جیل میں رکھ سکتی ہے اسی طرح سے نظام عدل سے کسی کے خلاف بھی کسی طرح کا فیصلہ بیٹھے بٹھائے کروائے جا سکتے ہیں کیونکہ عمران خان کی زندگی کے بارے میں پاکستانیوں سے زیادہ یورپ والے جانتے ہیں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں؟ اور کیا نہیں کر سکتے؟ اس لئے جب مغرب والوں کو ان کے خلاف اتنے سارے مقدمات کا علم میڈیا کے ذریعے ہوا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور اس کے بعد ان پر پاکستانی پولیس کی اور ججز کی اصلیت واضح ہو گئی کہ وہاں کی پولیس کچھ بھی کرسکتی ہے اس لئے کہ وہاں رولز آف لاءکا وجود نہیں ہے بلکہ جنگل کا قانون ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو چاہئے کہ وہ اپنی ساکھ کو بچانے کی خاطر پاکستان میں جاری اس لاقانونیت کا نوٹس لے اور ملکی عوام کو اس غیر اعلانیہ مارشل لاءکی صورتحال سے باہر نکلوائیں اسی میں پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں