Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
زرداری کی چھٹی۔۔۔؟ 258

وائس رائے طرز حکمرانی کیوں؟

پاکستان میں رسوائے زمانہ ”وائس رائے“ طرز حکومت وجود میں لا دی گئی۔ دونوں بدنام زمانہ کریمنل خاندانوں میں حکمرانی کو مساوی طریقے سے باپ کا مال سمجھ کر تقسیم کردیا گیا ہے، بظاہر یہ سارا کھیل جمہوری فریم آف ورک کے اندر رہ کیا گیا۔ ملک میں 8 فروری کو باقاعدہ الیکشن بھی کروائے گئے لیکن اسی الیکشن کے نتائج نے پاکستان کی اندرونی تلخ حقیقت پوری طرح سے واضح کردی ہے۔ جس کی وجہ سے بیک وقت ملکی اور غیر ملکی دونوں اسٹیبلشمنٹ کے چاروں طبق روشن ہو کر رہ گئے اور اس کے بعد کرتا دھرتاﺅں کے پاس خود اپنی بقاءکے لئے اسی رسوائے زمانہ ”وائس رائے“ کا چورن بیچنے کے اور کوئی آپشن ہی نہیں تھا لیکن کیا اس نظام کے ذریعے وہ خود اپنے جانب بڑھنے والی موت سے خود کو بچا پائیں گے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ معاملہ حق اور باطل کے ٹکراﺅ کا ہے، مقابلہ جھوٹ اور سچ میں ہے، سچ کو اس وقت دبانے، اسے کچلنے یا پھر روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان میں ٹیوٹر کی بندش اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے، جو لوگ پاکستان میں بیٹھ کر سچ بھی بول رہے ہیں اور کسی زد میں بھی نہیں آرہے ہیں، یقین جانئیے وہ دلیر یا مجاہد نہیں کہ سر پر کفن باندھ کر سچ بول رہے ہیں۔ ان کے سچ میں اس طرح کی آمیزش شامل ہے جو سسٹم کے مفاد میں ہے یعنی ان کے سچ میں آکر اصل مجاہدوں کا بھید حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بھی پلان کا حصہ ہے اس میں بعض اینکرز پرسن دانشور اور صحافی بھی شامل ہے۔ وہ سچ ہی کیا جس میں مشکلات اور تکالیف شامل نہ ہو۔ بحرحال اس وقت ملک میں زرداری اور شریف برادران ملکی عوام کے ووٹوں سے دھتکارے جانے کے باوجود حکومت میں آگئے یا پھر لا دیئے گئے ہیں، صرف اور صرف ملکی عوام کی عزت نفس کو مجروح کرنے اور انہیں اپنی طاقت کا احساس دلانے کے لئے۔۔۔ کہ تم جسے بھی ووٹ دو تمہارے ووٹوں کی پاکستان میں کوئی قیمت نہیں۔ یہاں وہی ہو گا جو ہم چاہیں گے اور اس طرح سے بلند بانگ دعوے کرنے ولوں نے زرداری کو دوسری بار ملک کا صدر ار اسی طرح سے شہباز شریف کو بھی دوسری بار ملک کا وزیر اعظم بنوا کر اپنی طاقت اپنی ہٹ دھرمی اپنی بے شرمی اور اپنے عوام سے اپنی دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا لوہا منوالیا اور سب سے بڑھ کر محسن نقوی کو پہلے پنجاب کا وزیر اعلیٰ اور اس کے بعد اب انہیں وفاقی وزیر داخلہ بنوا کر یہ ثابت کردیا کہ یہ سب کے سب وائس رائے ہیں۔ جس طرح سے شوکت عزیز وائس رائے بن کر وزیر اعظم بنوائے گئے تھے سب کو معلوم ہے کہ ان کی پرچی کہاں سے آئی تھی اور محسن نقوی کے بارے میں بھی سب ہی کو معلوم ہے کہ ان کی پرچی کہاں سے بھجوائی گئی تھی۔ یہ سب پاکستان میں تو گملے کے پودے ہیں مگر ان کی جڑیں کہیں اور ہیں۔
عمران خان نے بالک درست کہا تھا کہ جن کی جائیدادیں ملک سے باہر ہو جن کی دولت غیر ملکی بینکوں میں ہو وہ کبھی بھی اپنے ملک کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے، ان کے تمام تر فیصلے تمام تر اقدامات دوسروں کو فائدہ اور خود اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے ہوتے ہیں۔ اسی لئے انہیں وائس رائے طرز حکمرانی کہاں جاتا ہے جو صرف لوٹ مار کرنے کے لئے حکمرانی میں آتے ہیں اور لوٹ مار کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ اور چوری کے ووٹوں پر کھڑی یہ کمزور ترین حکومت کیا مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کرسکے گی اور اس کے پیچھے چھپ کر ان کی ڈوریں ہلانے والے اس حکومت کی آڑ میں خود کو بچانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اس کا جواب صرف ”نا“ کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ حکومت ایک سال بھی نہیں گزار سکے گی اور بہت جلد ہی جوتوں میں دال بٹنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، جب کھانے والے زیادہ اور کھانا کم ہو تو وہاں آپس میں دست و گریباں ہونا تو ایک فطری تقاضا بن جاتا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال بدنصیب پاکستان کی ہونے جارہی ہے جس کے بعد انہیں مصنوعی طریقے سے ایک چھت کے نیچے لانے والوں سے بھی معاملات نہیں سنبھلنے پائیں گے۔ انہیں آج نہیں تو کل عمران خان سے ڈیل کرنا ہی پڑے گی اور سچائی کے آگے سجدہ ریز ہونا ہی پڑے گا۔ اس کے بغیر معاملات درست نہیں ہو سکتے۔ ملک کو قانون کے تابع لانا ہی پڑے گا۔ قانون کی حاکمیت سے ہی سیاسی افراتفری کا خاتمہ ہوگا اور ملک مستحکم اور آگے بڑھے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں