پاکستان میں سیاست دان سچ اس وقت ہی بولتے ہیں جب وہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور انتقام کی آگ میں جلنے کے دوران ہی ان کے منہ سے ایک دوسرے کے خلاف جو انگارے نکلتے ہیں وہ اس میں سچ ہی سچ ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی پول پٹیاں کھول رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جب ان سیاستدانوں میں کسی بھی طرح سے کوئی آسمانی آفت آتی ہے تو یہ خود کو اس سے محفوظ رکھنے کے لئے وہ بھی قانون سازی کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور قانون شکنی میں لپٹی لوگوں کو قانون کے ذریعے ہی تحفظ فراہم کرواتے ہیں دوسرے معنوں میں قانون کو ڈھال یعنی گھر کی کنیز بنا ڈالتے ہیں، بالکل اسی طرح سے قدرت کی طرف سے ان کے بداعمالیوں کے نتیجے میں ان پر عمران خان کی شکل میں جو آفت ڈالی گئی ہے اس سے خود کو بچانے کے لئے مسلسل قانون سازی ہی کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں نیب کے قوانین میں جس طرح کی اندھی اور بے منطقی قسم کی تبدیلی کرکے عجلت میں اسے قانونی شکل بھی دیدی گئی ہے اس کا مقصد صرف اور صرف عمران خان کو راستے سے ہٹانا یعنی اسے پابند سلاسل کرنا ہے، اسے قید میں رکھنا ہے کیونکہ اس کے آزاد ہوتے ہوئے یہ دھاندلی زدہ الیکشن نہیں کروا سکتے۔ الیکشن نہ کروانے کی صورت میں ان کے ان خوابوں کی تعبیر نہیں مل سکے گی جو انہوں نے دن کی روشنی میں چلتے پھرتے ہوئے حالت میں دیکھے ہیں ان تمام خواہشات کی تکمیل کے لئے عمران خان کا منظر سے ہٹ جانا بہت ضروری ہے۔ اپنے طور پر موجودہ حکمرانوں اور ان کے اندرونی اور بیرونی تمام سہولتکاروں نے سارے کے سارے حربے استعمال کرلئے ہیں جو سب کے سب بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈرا دھماکہ کر اور لالچ دے کر بھی دیکھ لیا، مگر وہ مرد آن اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہی نہیں ہوا ان کی موجودہ صورتحال کو دیکھنے کے باوجود بعض سر پھرے پٹواری یہ کہتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے کہ ان کا لیڈر نواز شریف تو شیروں کا شیر ہے وہ نہیں گھبرایا اور ڈٹ کر مقدمات کا مقابلہ کیا اور جیل جانے سے بھی نہیں گھبرایا ان عقل کے اندھوں کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے معروف رہنما اور قانون دان نے بہت ہی عمدہ بات کہی ہے، اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ دلیری کا اندازہ لگائیں کہ جس کا سگا بھائی ملک کا وزیر اعظم ہے اس کے باوجود نواز شریف اپنی دلیری اور بہادری کی وجہ سے ملک میں نہیں آرہا ہے اور وہ ملک سے باہر ہے اور وزیر اعظم جس کی جان کا دشمن ہے اس کے خون کا پیاسا ہے وہ ملک سے جان بچانے کے لئے بھاگنے کی بجائے ملک میں ہی موجود ہے، اس سے اندازہ لگائیں کہ کون دلیر، کون محب الوطن اور کون بزدل اور ملک دشمن ہے۔۔۔؟
یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں کہ کسی کی سمجھ میں ہی نہ آئے اس کے باوجود بھی پٹواریوں کو اپنے لیڈر کو بہادر اور شیر کہتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ خیر بہت ساری قانون سازی عمران خان کو گھیرنے یا پھر پابند سلاسل کرنے کے لئے کردی گئی ہے لیکن ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیں معلوم
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
جس کو اللہ کی مدد حاصل ہو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، موت اور زندگی سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہوتی، جب اللہ نے ان کے دشمنوں کی انہیں مارنے کی ساری کوششیں ناکام بنا دی تو پھر یہ مقدمات کی حیثیت تو پانی کے بلبلوں سے زیادہ نہیں۔ پارٹی تڑوا دی، سارے لیڈرز پارٹی سے نکل گئے، سب نے وفاداریاں تبدیل کر لیں، سب مٹی کروا دیا، کیا ہوا؟ کیا ملکی عوام میں عمران خان اور ان کی پارٹی کی مقبولیت کم ہوئی، بالکل بھی نہیں، ان حکومتی اقدامات کے نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت اور بھی بڑھ گئی، ان کے گناہ دھل گئے، اور وہ ایک سچے پاکستانی لیڈر بن کر ابھر گئے، ان کے مخالفت میں کام کرنے والی تمام نظر آنے اور نظر نہ آنے والی قوتیں عوامی نظروں میں زیرو ہو کر رہ گئی ہیں، اس وقت پاکستانی عوام نے عمران خان کو اپنی ضد بنا لیا ہے، کچھ بھی کرلیں، ایک شفاف الیکشن میں عمران خان کو مات دینا اب دیوانے کا خواب بن کر رہ گیا ہے، اس لئے ان عقل کے اندھوں کو چاہئے کہ اب بھی وقت ہے اور وہ سچائی کے آگے ہتھیار ڈال کر اسے گلے لگا لیں، اسی میں پاکستان کی سلامتی اور اس کی بقاءمضمر ہے۔
