Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
پامالیِ دستور 34

پامالیِ دستور

ریاستیں اپنے اصول و ضوابط کے سبب زندہ اور قائم رہتی ہیں۔ قومیں اس لئے مضبوط کرتی رہتی ہیں کہ ریاست کا دستور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ آئین پاکستان، قائد اعظم کے مطابق اسلامی اصولوں پر وضع کیا گیا۔ ایک ایسا آئین جو ہر شہری، بلا تفریق مذہب، زبان اور حیثیت کو یکساق حقوق کا حامل قرار دیتا ہے۔ کوئی بھی کسی طور قانون کی پاسداری اور احترام سے مستثنیٰ نہیں۔ ہر شہری کو یہ اختیار کہ وہ حکومت کے امور انجام دینے اور قانون سازی کے لئے اپنا نمائندہ مقرر کرے اور پھر وہ نمائندہ خود کو اس مقام تک پہنچانے والوں کے سامنے اپنے اعمال پر جوابدہ ہوتا ہے۔ ریاست کے اہم ترین ستون عدلیہ پر ان حقوق کی پاسداری کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 1956ءسے لے کر 1973ءتک پاکستان کی ریاست نے آئین مرتب ہونے کے کئی مرحلے طے کئے۔ موجودہ وقت تک آئین میں کئی ایسی تبدیلیاں لائی جا چکی ہیں جو فوجی ڈکٹیٹروں اور مفاد پرست حکومتوں کے لئے حالات سازگار بنانے میں معاون ثابت ہوئیں۔
زمانہ حال میں ابھی پچھلی 26 ویں ترمیم ہی کے نکات درست نہیں ہوئے تھے وہ تمام اعتراضات جو اس ترمیم کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے، جس میں اس کے مسودہ کو خفیہ رکھنے، اس کی منظوری کی عجلت اور اسمبلی اور سینیٹ میں تعداد پوری کرنے کے طریقہ کار اور خصوصاً اس کے مندرجات کے خلاف عدالتوں میں اپیلوں پر ہی معاملات طے نہیں ہو پائے تھے کہ ایک دفعہ پھر اسی عجلت اور رازداری کے ساتھ 27 ویں ترمیم منظور کروالی گئی۔ اس ترمیم کی تفصیل منظر عام پر آنے بعد گویا 1973 کے آئین کی بساط لپیٹنے کا فریضہ انجام دیدیا گیا۔ اس ترمیم میں ہر وہ شق شامل کی گئی ہے جو ریاست پاکستان کے اس نظریہ کو کہ آئین پاکستان اپنے شہریوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہو گا کی نفی کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو ایک مطلق العنان بادشاہت میں تبدیل کردیا گیا ہے جو براہ راست ایک بے نام اور نامعلوم طاقت کے زیر اثر رہے گی۔ تمام ریاستی ادارے پابند ہوں گے احکامات بجا لانے کے جو کسی پوشدیدہ جانب سے ان پر صادر کئے جائیں گے بقول وفاقی وزیر دفاع کہ پاکستان میں بائبرڈ نظام رائج ہو چکا ہے۔
27 ویں ترمیم کے تحت پاکستان کی عدلیہ کے تمام اختیارات اب انتظامیہ کے دائرہ کار میں آئیں گے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ ایک آئینی وفاقی عدالت بھی وجود میں آچکی ہے جو تمام آئینی معاملات پر غور و فکر کرے گی اور سپریم کورٹ صرف عدالتی اور فوجداری اپیلوں اور مقدمات سے واسطہ رکھے گی۔ سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کا اختیار لے کر آئینی وفاقی عدالت کو تفویض کردیا گیا ہے آئینی عدالت کے تمام فیصلوں کا اطلاق تمام عدالتوں پر ہو گا۔ بشمول سپریم کورٹ کے۔ مگر سپریم کورٹ کے فیصلے وفاقی آئینی عدالت پر لاگو نہیں کئے جا سکیں گے۔ جوڈیشل کمیشن اب ایک نئے طرز پر کام کرے گا۔ عدالتوں میں ججز کا تقرر اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہو گا گویا منصفوں کو انصاف فراہم کرتے وقت اپنی مدت ملازمت کی توسیع کو پیش نظر رکھنا ہو گا یا پھر برخاست کر دیئے جائیں۔
27 ویں ترمیم کے ذریعے دفاعی ادارے میں بھی تبدیلیاں عمل میں لائی گئی ہیں چیف آف آرمی کا عہدہ برخاست کرکے ”کمانڈ آف ڈیفنس“ کا عہدہ قائم کیا گیا ہے۔ پرانا عہدہ 27 نومبر 2025ءکو ختم ہو جائے گا۔ یہ گویا اس کی ضمانت ہے کہ موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل ہی اس عہدے پر ترقی پا جائیں گے۔ اور یہ تقرری ترمیم کے مطابق تا حیات تصور کی جائے گی۔ تاویلیں اس سلسلے میں یہ پیش کی گئیں ہیں کہ چونکہ پاک بھارت کی حالیہ جھڑپ میں جو حربے استعمال کئے گئے ان میں بہتری لانے کے لئے موجود کمانڈ کا تسلسل ضروری ہے۔
اس نئی ترمیم کی اہم ترین شق کے مطابق صدر مملکت پاکستان اور کمانڈر ڈیفنس کو تاحیات ہر قسم کے مواخذہ سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے۔ خواہ وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں یا نہیں۔ ایک ایسی ریاست جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہو اور جمہوری ہونے کا استحقاق رکھتی ہو کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو یہ مراعات کس طرح تفویض کی جا سکتی ہیں جب پیغمبر اسلام اپنی دختر کو کوئی ایسی چھوٹ نہ دینے کی بابت کہتے ہوں تو ریاست پاکستان کا آئین کس بنیاد پر یہ مراعات دے سکتا ہے۔ موجودہ صدر زرداری کا اپنے لئے یہ انتظام حالات اور ماضی کو دیکھتے ہوئے قابل یقین ہے مگر ایک ایسا سپہ سالار جو 25 کروڑ کی دفاع پر معمور ہے کس طرح ان مراعات کو تسلیم کر سکتا ہے ایک غیور اور باہمیت فوجی کے لئے تو یہ پیشکش انتہائی توہین آمیز اور رسوا کن ہے بلکہ اس مراعات کی وجہ سے پورا دفاعی ادارے کے وقار اور دفاعی صلاحیت پر حرف آتا ہے۔ ایک کالم کچھ عرصہ قبل ”غیر محفوظ محافظ“ کے عنوان سے رقم ہوا تھا آج یہ عنوان حقیقت میں سامنے آرہا ہے اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو استثنیٰ حاصل کرنے والی شخصیت اپنے تمام اعمال سے آگاہی کا اعلان کررہی ہے۔ یہ مراعات قبول کرنا تصدیق ہے گویا اس امر کی کہ جو پچھلے دو سال کے عرصہ میں پاکستانی عوام بیان کرتی رہی ہے وہ سب حقیقت پر مبنی ہے وہ تمام زیادتیاں جو عوام پرکی گئیں انتخابات میں دھاندلی، سیاسی جمات کو ٹھکانے لگانے کی کوشش، ذرائع ابلاغ پر پابندیاں، حقوق انسانی کی پامالی، چادر اور چاردیواری کے اور خصوصاً خواتین کے تقدس و حرمت پر زیادتی، تمام ریاستی اداروں کی بے توقیری، عدلیہ اور پارلیمان کی مفلوج حالت، گویا تمام ذمہ داریاں قبول کر لی گئی ہیں۔ تمام مراعات کو قبول کرکے۔ دفاعی اداروں اور عوام میں خلیج اور گہری ہو گئی ان مراعات کے بعد گویا یہ تمام اعتراف ہے اس خوف کے ساتھ کہ کبھی نہ کبھی مواخذہ ہو سکتا ہے۔ ان مراعات کے اعلان نے قوم کو مزید مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ ریاست پاکستان کے مخالفوں کو ایک اور موقع فراہم کیا گیا ہے۔ اداروں کی کمزوریوں کو ظاہر کرکے۔
حیرت ہے ان تمام سیاستدانوں اور قانون دانوں پر جنہیں دعویٰ ہے قانون کے محافظ ہونے کا، کی بے ضمیری پر، کیا مفادات اور اقتدار کی ہوس اس قدر کم نظری پر آمادہ کردیتی ہے کہ نظریہ پاکستان کی بنیادی قدروں کو بھی صرف نظر کردیا گیا۔ اور آئین پاکستان کو ایک ایسی دستاویز میں تبدیل کرنے کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ ریاست کو معزول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔
مغربی ذرائع ابلاغ اس آئین سازی کو اپنے احاطہ تقریر و تحریر میں داخل کر چکے۔ ریاست پاکستان کو اس وقت خود اپنے ہی دعویداروں کے ہاتھوں سبکی کا سامنا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام دعویدار وفادار ہونے بھی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں