اس وقت پاکستان میں الیکشن کے نام پر سلیکشن کروائے جارہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں جس طرح سے بے رحمانہ طریقے سے سرکاری مشینری کو استعمال کیا جارہا ہے اس سے ایک تو سعادت حسین منٹو کے اس تاریخی قول کی کہ ”ہمارے ہاں کے ججز جب کسی طاقتور سائل کا سامنا کرتے ہیں تو اس وقت وہ اپنی دھوتی پیچھے سے اٹھا لیتے ہیں اور کوئی کمزور، غریب اور حالات کا شکار ان کے سامنے سائل یا پھر ملزم کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں تو پھر یہ اپنی دھوتی آگے سے اٹھاتے ہیں“۔ اور دوسرا ارسطو کا وہ تایخی قول کہ ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے کہ جسے خونخوار جانور پھاڑ کر نکل جاتے ہیں اور کیڑے مکوڑے اس میں پھنس جاتے ہیں“۔ اس پر پوری طرح سے صادق آرہا ہے، اگر کوئی بھی ذی شعور شخص اس وقت پولیس اور عدالتی نظام کا جائزہ لے تو ہمیں ایسا ہی سب کچھ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
نواز شریف کے سارے ثابت شدہ کیسوں کا عدالتوں سے ختم ہونا اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دوسرے رہنماﺅں کے خلاف رائی کو پہاڑ بنانے کے مصداق نظر انداز کئے جانے والے معاملات کو قانونی رنگ دے کر انہیں عدالتوں کی نذیر کرنا، یہ سب کیا ہے۔۔۔؟
پاکستان کا عدالتی نظام دوسرے باقی ماندہ سسٹم کی طرح سے قوم کے آگے بیچ چوراہے پر عریاں ہو چکا ہے اور پوری قوم اسے ننگا دیکھ کر محظوظ ہو رہی ہے۔ اب اس طرح کے عدالتی نظام سے کسی کو کس طرح سے انصاف مل سکتا ہے۔ پاکستان میں پولیس کا نظام تو پہلے ہی اپنی کرپشن اور بدکاری کی وجہ سے اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ رہی سہی کسر پاکستان کے عدالتی نظام نے اپنے ہاتھوں اجتماعی خودکشی کرکے پوری کرلی۔ اب پاکستان بدقسمتی کے ساتھ پوری طرح سے پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے۔ پولیس نے جس کے خلاف جس طرح کی ایف آئی آر درج کرلی ہے وہ اب حرف آخر ہو چکی ہے۔ اس میں ردبدل کرنے کا اب پاکستان کے کسی عدالتی نظام میں کوئی گنجائش نہیں ماسوائے جن دفعات کا پولیس نے اندراج کیا ہے اس میں سزائیں سنانے کے۔۔۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں پاکستان کے اندر وہ الیکشن کروائے جارہے ہیں جو اس نظام سے گزرتے ہوئے الیکشن سے سلیکشن میں تبدیل ہو جائیں گے۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ جب ملک پر اصلیت میں حکمرانی کرنے والوں نے پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ سندھ زرداری کو، پنجاب اور مرکز نواز شریف اور خیبرپختونخواہ مولانا فضل الرحمن کو اور بلوچستان خود کو دینا ہے تو پھر اس الیکشن یا پھر سلیکشن پر قوم کے اربوں روپے کو ضائع کرنے اور اس انتخابات کا ڈراہ رچانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ اگر ویسے ہی اعلان کردے اس بات کا تو۔۔۔ کونسی قوم احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے گی، جب سب کچھ قوم کو بے وقوف کرواکر کرنا ہے تو پھر ڈر کس بات کا۔۔۔؟ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان دنوں یہ سارا کھیل تماشہ جاری ہے۔ پاکستان کی آزاد میڈیا اور آزادی کی دعویدار عدلیہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے مگر مجال ہے کہ کوئی آگے بڑھ کر ایسا کرنے والوں کو روکے یا پھر ٹوکے۔۔۔؟ سارے کے سارے مخالفین کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے یعنی میدان صاف کرلیا گیا ہے۔ ایک طرح سے سب کو بلا مقابلہ جتوانے کے لئے راہیں ہموار کردی گئی ہیں۔ یعنی نہ رہے بانس اور نہ ہی بجے بانسری والی صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔ کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔۔۔
اب اسے کون پاگل کا بچہ کہے گا کہ یہ الیکشن ہو رہے ہیں کیونکہ یہ الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہیں اس طرح کا کھیل تماشہ کرنے والے اگر اس غلط فہمی یا پھر خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس طرح سے کرکے بھی وہ اپنی عوام کے دلوں پر حکمرانی کریں گے اور عوام اور ان کے درمیان عقیدتوں اور محبتوں کا رشتہ ہے تو وہ اس خام خیالی کو دل سے نکال دے یہ دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت نہیں۔ وہ شاید ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کر پائے ہیں کہ پاکستانی قوم تبدیل ہو چکی ہے۔ شعور کا جن بوتل سے نکل کر آزاد ہو چکا ہے، قوم دوست اور دشمنوں کو جان بھی چکی ہے اور پہچان بھی چکی ہے۔ قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہے، قوم کی اس وقت ساری توقعات اپنی افواج سے وابستہ ہے کہ وہ انہیں اس مشکل سے نکالنے میں ضرور اپنا کردار ادا کرے گی۔ اسی میں پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔
