پاکستان میں جس نظام کے زیر سایہ پاکستان کی 78 ویں جشن آزادی منانے کی اس وقت تیاریاں کی جارہی ہے اس نظام پر ایک نہیں، دو نہیں بہت سارے سوالات کھڑے کر دیئے گئے ہیں کہ کیا اس نظام کی موجودگی میں پاکستانی درست سمت پر جارہا ہے یا کہ پاکستان اپنی شناخت کھو چکا ہے بلکہ پوری طرح سے بھٹک چکا ہے اور ایک گمنام منزل کی طرف رواں دواں ہو چکا ہے۔ یہ لمبی چوڑی تمہید پاکستان کے موجودہ صورتحال کو جاننے کے بعد باندھ رہا ہوں کہ ملک اس وقت بہت ہی مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے جس طرح سے انسان اپنی ہے بے وقوفی سے ہاتھ سے باندھی گانٹھوں کو دانتوں سے کھولنے پر مجبور ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح سے بحیثیت ریاست پاکستان کو بھی آگے چل کر سیاستدانوں اور ڈکٹیٹروں کو اپنے گناہ کو چھپانے کے لئے جس طرح کی قانون سازسیاں کرکے جمہوری سسٹم اور دوسرے خودمختار اداروں کو بھی اپنے تابع کرلیا ہے وہی قانون سازیاں دانتوں سے گانٹھیں کھولنے کے مصداق دوبارہ کرنا پڑے گی کیونکہ ایسا کئے بغیر ملک میں نہ تو انصاف کا نظام قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی قانون کی بالادستی واپس لائی جا سکتی ہے۔
وقتی فائدہ کے حصول کے لئے پورے ملک کو بھٹکا ہوا مسافر بنا دیا گیا اور اس ظلم و نا انصافی پر شور مچانے والوں کو جھوٹے مقدمات میں اپنی عدالتوں کے ذریعے اپنے ذاتی ملازم ججوں سے اپنے لکھے گئے فیصلے تک سنوائے گئے۔ اتنا بھیانک مذاق جس نظام کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت کا اڑایا گیا اب اسی نظام کے زیر سایہ پاکستان کی 78 ویں جشن آزادی منانے کی تیاریاں کی جارہی ہے۔ اس سے بڑا ہی کوئی مذاق ہو سکتا ہے، کون سی آزادی۔۔۔؟ کس کی آزادی۔۔۔؟ اور کون سا جشن۔۔۔؟ اگر اسے آزادی کہتے ہیں تو پھر اس سے پہلے 1947ءوالا سندھ، بلوچستان، پنجاب اور پشاور زیادہ خوشحال، زیادہ پرامن اور زیادہ ترقی یافتہ تھانہ تو پولیس کے ہاتھوں لوگ بے گناہ گرفتار کئے جاتے تھے اور نہ ہی کسی کو جعلی مقابلوں میں مارا جاتا تھا۔ چادر چار دیواری کے تقدس کا خیال رکھا جاتا تھا۔ ادارے آزاد تھے، قانون کی بالادستی قائم تھی، عدالتوں کا خوف تھا، پھر کیا ہوا 1947ءکے بعد ملک آزاد ہوا، ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں، ہم لوگوں کا 14 اگست کو آزادی کا جشن منانا، بالکل اسی طرح سے ہے جس طرح سے جیلوں کے قیدی بھی ہر سال دھوم دھام سے 14 اگست کا جشن مناتے ہیں۔ ملی نغمے گاتے ہیں اور کیک کھاتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جیل کے اندر قید ہو کر آزادی کا جشن مناتے ہیں اور ہم باہر رہ کر یہ جشن مناتے ہیں، ایک کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ہیں اور دوسرا بظاہر آزاد۔۔۔
یہ میں کسی ایک سیاسی پارٹی کا ترجمان یا پھر سپورٹر جن کر نہیں بیان کررہا ہوں بلکہ یہ ہر ایک پاکستانی کی کہانی ہے، آج ہر کوئی اس موجودہ نظام سے شاکی ہے، ہر کوئی اس کا ڈسہ ہوا ہے، ہر کوئی آج مشکل میں ہے، اس ملک کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کوئی یہاں سکون سے کوئی کاروبار کرے، کوئی نوکری کرے، ہر کسی کے کام میں اتنی مشکلیں پیا کرلی ہیں کہ اب ہر کوئی اس ملک سے بھاگنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ ملک اب رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ یہ ملک اب اشرافیہ یا پھر طاقت ور لوگوں کا بن گیا ہے۔ یہاں پر صرف مافیاز ہی سکون سے رہ سکتی ہے، دو نمبر کا کاروبار کرنے والوں کے لئے اسے فری زون بنا دیا ہے، اسی وجہ سے ٹیلنٹڈ لوگ اب اس ملک سے بھاگنے میں ہی عافیت خیال کررہے ہیں۔
ویسے بھی سسٹم میں موجودہ سیاستدان بھی اب دست گریبان ہوتے جارہے ہیں، ایک دوسرے کی کمزوریوں کے بے نقاب کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، پہلے حکمران پارٹی کے اتحادیوں کو آپس میں لڑوایا جائے گا، اس کے بعد دونوں کو چلتا کردیا جائے گا، اس وقت بلی تھیلے سے باہر نکل آئے گی، فی الحال کچھ عرصے تک اس بیماری کو گلے کا ہار بنایا جائے گا، اس 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر بہت چیزیں سامنے آ جائے گی۔ وطن عزیز کو صحیح اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ملک کا اس بحران سے نکلنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ خدا ارباب اقتدار اور ان کے پس پردہ قوتوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے۔
