پاکستان میں اس وقت جس طرح کا نظام چل رہا ہے اس کی حمایت کرنے والے یا پھر اس پر خاموشی اختیار کرنے والے نہ تو قائد اعظم کے اس پاکستان سے کوئی مخلص ہیں اس سے انہیں کوئی لگاﺅ ہے اور نہ ہی اس بدنصیب ملک میں رہنے والے تیس کروڑ سے زائد انسانوں کے وہ خیرخواہ ہیں اس وقت جو کچھ بھی پاکستان میں ہو رہا ہے وہ نہ تو کسی مہذب انسانوں والے معاشرے میں کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی جمہوری ملک میں اس کا کوئی تصور کر سکتا ہے بلکہ اس طرح سے تو جنگلوں میں بھی نہیں ہوتا۔ جنگل کا بادشاہ شیر بھی ایک شکار کرکے اپنا پیٹ بھرنے کے بعد دوسرے جانوروں پر حملہ آور نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ وہ تو اور کسی بھی جگہ نہیں ہو سکتا۔ پورا ملک اس وقت جھوٹ اور زور و زبردستی پر چلایا جارہا ہے۔ وہ مین شو ہے، دنیا کی بدترین آمریت اس وقت پاکستان میں ہے، نہ کوئی تھانہ، نہ کوئی عدالت، نہ کوئی صحافت ”چیک اینڈ بیلنس“ کا نظام ہی جڑ سے اکھیڑ دیا گیا، اب صرف اور صرف سب اچھا ہے کی رپورٹیں بھی ملکی حساس ادارے بادشاہ سلامت کو دے رہے ہیں، جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں وہ چٹکی بجا کر کروادیا جاتا ہے، اب حال میں سینیٹ کے الیکشن ہوئے، رزلٹ سب کے سامنے ہے، جو بادشاہ سلامت کی خواہش اور چاہت تھی وہی رزلٹ کیک کی طرح سے پلیٹ میں رکھ کر ان کے سامنے رکھ دیا گیا سب کو معلوم ہے کہ یہ انصاف نہیں ہوا یہ آزادانہ اور مرضی کے مطابق نہیں بلکہ بندوق کے زور پر ہوا جس طرح سے آٹھ فروری کے الیکشن کے نتائج کو فارم 47 کے ذریعے تبدیل کروائے گئے، کمشنر اسلام آباد اس تاریخ ساز بے ایمانی اور دونمبری پر ضمیر کے ہاتھوں چیخ پڑا تو اسے اٹھا کر غائب کروادیا گیا جس نے اس جرم میں سٹنگ چیف جسٹس کا نام تک لیا مگر کیا ہوا۔۔۔؟ پورا میڈیا خاموش رہا کیونکہ ملک میں کوئی قانون نہیں، کوئی عدالت نہیں، صرف اور صرف بندوق کا راج ہے، شرم آنی چاہئے ان بڑے بڑے صحافیوں کو جو آزادی اظہار رائے کا دم ہی بھرتے ہیں اور اس ظالمانہ نظام کو سپورٹ بھی کررہے ہیں۔
پاکستان واحد ملک ہے جہاں سرکاری سطح پر جھوٹ کو پھیلایا جاتا ہے اور یہ ہی بے ضمیر صحافی اپنے قلم کا سودا کرتے ہوئے اس سرکاری جھوٹ کو پروان چڑھاتے ہیں۔ 9 مئی کا واقعہ بالاخر جھوٹا ثابت ہو ہی گیا، جسے سچ بنانے کے لئے سرکاری سطح پر اس کی پیروی کی گئی اور ان ہی حرام خور صحافیوں نے اس جھوٹ کو سوچ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اس کے باوجود وہ جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر سکے کیونکہ جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے، ہمیں اس وقت تمام سیاسی جماعتوں سے بالائے طاق ہوتے ہوئے صرف اور صرف ملک کا سوچنا چاہئے کہ آخر اس طرح کے نظام کے ذریعے ہم ملک کو کس طرف لے جارہے ہیں۔ کیا کبھی اس طرح کے فرسودہ اور ظالمانہ نظاموں کے ذریعے بھی ملک آگے بڑھتے ہیں؟ اسپرنگ کو ایک حد تک دبائے رکھا جا سکتا ہے اس کے بعد یا اسپرنگ ٹوٹ جاتا ہے یا پھر زور کم پڑتے ہی وہ اسپرنگ پوری قوت سے اپنی جگہ واپس آ جاتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت کچھ بھی نارمل نہیں ہے۔ عوام کو کب تک اس طرح سے ڈرا دھمکا کر رکھا جائے گا۔ کب تک جھوٹے مقدمات تھانے اور جیلوں کا سہارہ لیا جائے گا؟ آخر کب تک۔۔۔ جب بھی حالات نارمل ہوئے تو پھر اس صورتحال کے ذمہ داروں کو شاہ ایران اور حسینہ واجد کی طرح سے ملک میں چھپنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملے گی اور نہ ہی ان کے آقا پھر انہیں اپنے ملکوں میں بھی پناہ دینے کے قابل ہوں گے اس لئے برے وقت سے ڈرتے ہوئے عوامی جذبات ان کے احساسات اور خواہشات کا احترام کریں اور انہیں ان کا چھینا ہوا حق واپس لوٹا دیں اسی میں قائد اعظم کے پاکستان کی سلامتی، بقاءاور فلاح مضمر ہے۔
