پاکستان ابھی تک اپنی اندرونی بحران سے نہیں نکل سکا بلکہ بتدریج وہ گہرے کنویں میں گرتا چلا جارہا ہے۔ پاکستان میں ایک غیر اعلانیہ مارشل لاءلگا ہوا ہے، بولنے اور نشر کرنے پر ایک طرح سے پابندی ہے اور اب تو عمران خان کا نام اس کی کوئی خبر ملکی میڈیا پر چلانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ملک کی بڑی عدالتوں کے تقریباً بڑے فیصلوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ایک طرح سے ملکی آئین کو بھی خاطر میں نہیں لایا جارہا ہے بلکہ ملک میں جنگل کا قانون یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہی ملکی امور کو اس وقت چلایا جارہا ہے اس طرح کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کرنے کی ضرورت ملک پر قابض ٹولے کو کیوں پیش آئی، اکثر یہ ہی سوال پوچھا جاتا ہے جس کا بڑا سادہ سا یہ ہی جواب ہے کہ ملک کے دھتکارے ہوئے گملے کے پودے نما پارٹیاں اور ان کے سہولت کاروں کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ ملکی رائے عامہ ان کے حق میں نہیں ہے اس لئے وہ انتخابات کے ذریعے حکمران نہیں بن سکتے اس وجہ سے وہ اس وقت انتخابی دنگل میں اترنے کو تیار نہیں جب تک ماحول ان کے لئے سازگار نہ ہو اور ماحول کو سازگار بنانے کے لئے ان کے خواہشات کی راہ میں دیوار بننے والی رائے عامہ اور اس کے پیدا کرنے والے تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کو ٹھکانے لگانا ضروری تھا اور اس مقصد کے لئے کافی سوچ اور بچار کے بعد قانونی اور اخلاقی جواز پیش کرنے کے لئے انہیں 9 مئی کا افسوسناک واقعہ کروانا پڑا اور اس کے بعد اس کا سارا ملبہ تحریک انصاف پر ڈال دیا گیا۔
یہ دنیا کا واحد واقعہ ہے جو کرے کوئی، بھرے کوئی پر پورا اتر رہا ہے، یعنی جو اس واقعہ کا فائدہ مند ہے یعنی جسے اس افسوسناک واقعہ سے بہت بڑا سیاسی فائدہ پہنچا وہ اس واقعہ کا نہ تو ذمہ دار ہے اور نہ ہی قصور وار ہے اور نہ ہی سہولت کار ہے بلکہ وہ تو دور کھڑا تماش بین اور مگرمچھ کے آنسو بہانے والا ہے اور جسے اس 9 مئی کے افسوسناک واقعہ سے سب سے زیادہ سیاسی اور اخلاقی نقصان پہنچا اسے بھی اس افسوسناک واقعہ کو مرکزی ملزم ملک دشمن اور غدار ٹھہر دیا گیا۔ یہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔۔۔
جہاں انصاف اور قانون نام کی کسی شے کا وجود ہی نہیں ہے اور یہ بات درس تہے کہ پاکستان پر مافیاز ہی کسی نہ کسی شکل میں حکمرانی کرتی چلی آرہی ہے، اسے گاڈ فادر کہا جائے یا پھر سسلین مافیا۔۔۔ یہ نو مئی کا واقعہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے، جو لوگ اس سانحے پر سیاست کررہے ہیں انہیں اس کی اصلیت کا اور اس ملوث اصل کرداروں کا اچھی طرح سے علم ہے مگر انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بناءپر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
سقوط ڈھاکہ کی طرح سے اس کے اصل محرکات بھی ایک نہ ایک دن ضرور سامنے آئیں گے، فی الحال تو پی ڈی ایم کی حکومت پنجاب کے آئی جی کے ذریعے سے سانحہ نو مئی کے ایسے سلطانی گواہ کو اس وقت تیار کروا رہی ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر فوجی عدالت میں یہ بیان دے کہ سانحہ نو مئی کا سارا منصوبہ عمران خان نے بنوایا اور اس کی میٹنگ زمان پارک میں ان کے گھر پر ہوتی رہی تھی اور وہ سلطانی گواہ خود بھی ان میٹنگوں میں شامل ہوتا رہا ہے۔ پولیس ذرائع بتلا رہے ہیں کہ فی الحال پی ٹی آئی کے منحرف رہنما فیاض چوہان کو مبینہ طور پر اس مقصد کے لئے تیار کروایا جارہا ہے کہ وہ فوجی عدالت میں اس طرح کا بیان دے تاکہ عمران خان کو عمر قید یا پھر دس سال تک کی سزا دی جا سکے۔ اس طرح کے خوفناک منصوبے پر اس وقت عمل درآمد کروایا جارہا ہے مگر بدقسمتی سے سازشیوں کا یہ پلان وقت سے پہلے ہی بے نقاب ہو گیا ہے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیموں کے علاوہ غیر ملکی میڈیا کے پاس بھی اس طرح کی اطلاعات بمعہ شواہد کے پہنچ چکی ہیں اور خود عمران خان ہی رائیٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا ذکر کر چکے ہیں، پاکستانی حکمرانوں کا اس طرح کا طرز عمل ان کی بوکھلاہٹ اور ان کے مجرمانہ ذہن کو عیاں کررہا ہے اسی وجہ سے پاکستان کی سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی صورتحال میں اپنا کردار اد اکرتے ہوئے ملک کو تباہی کی دلدل میں گرنے سے بچائیں اور ہر کسی کو آئین کے دائرے میں رہنے کا پابند بنائیں، اسی میں پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔
