Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 129

پاکستان کو کُفرستان بنا دیا گیا؟

پاکستان کے 40 ہزار سے زائد زائرین کے پُراسرار طور پر غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے یہ انکشاف کسی صحافی یا پھر کسی این جی اوز کی جانب سے نہیں بلکہ خود وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی محمد یوسف کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یہ زائرین عراق، ایران اور شام گئے تھے جو قانونی طریقے سے پاکستان سے ان ممالک گئے تھے اس کے بعد لوٹ کر پاکستان نہیں آئے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ تمام زائرین کسی جنگ میں مارے گئے ہیں اور نہ ہی یہ کوئی ایران، عراق یا پھر شام کی جیلوں میں قید ہیں، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زائرین کی اتنی بڑی تعداد کہاں گئی، انہیں آسمان نگل گیا یا پھر زمین بوس ہو گئے۔
اس پر کسی نے کئی انکوائری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جب کہ اس سے قبل تاجروں کی جانب سے بھی یہ انکشاف کیا گیا ہے، پچھلے تین سالوں میں دس لاکھ سے زائد پاکستان کے پڑھے لکھے ٹیلنٹڈ جوان ملک چھوڑ چکے ہیں اور خود پاسپورٹ آفس کے حکام یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پچھلے تین سالوں سے جتنے پاسپورٹ بنوائے گئے ہیں اس کی نظیر پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان اب رہنے کی جگہ بالکل بھی نہیں رہا۔ ہر کسی کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہی جلد از جلد جیتے جی پاکستان سے باہر اگر کوئی جہنم ہے تو وہ وہاں چلا جائے۔ یقین جانئے اب پاکستانی پاکستان کے بجائے ہندوستان، افغانستان، ایران یہاں تک کہ افریقہ کے جنگلات میں بھی رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسا کیا ہوا کہ لوگوں کو اتنی نفرت قائد اعظم کے اس پاکستان سے ہو رہی ہے کہ وہ اپنی جائے پیدائش کے مقام کو دونوں ہاتھوں سے سلام کرتے ہوئے چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کس نے پاکستان کو خود اس کے رہنے والے پاکستانیوں کے لئے جہنم بنا دیا ہے کہ لوگ اب وہاں سے بھاگنے لگے ہیں۔ اس پر ارباب اقتدار اور صحافیوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت کوئی قانون نہیں ہے۔ جنگل کا قانون رائج ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتحال ہے۔۔۔
مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، مٹھی بھر تنخواہ سے جسم اور روح کے رشتے کو اب برقرار رکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا، گھر کی عورتیں اور بچے تک کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مگر کسی کو کام نہیں ملتا اس لئے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے عورتیں اور بچے دوسرے غلط راہوں کا انتخاب کررہے ہیں۔ معاشرے میں اخلاقی جرم اور دوسرے چوری، ڈاکہ زنی اور قتل جیسی وارداتوں میں بھی ریکارڈ حد تک اضافہ ہو گیا۔ لیڈرشپ کا فقدان ہے، حکومت کی اصلیت سب کے سامنے ہے، کسی کے پاس ملک کو اس بحران سے نکالنے کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے بلکہ اس وقت پاکستان کی طرز حکمرانی پر یہ شعر پوری طرح سے صادق آرہا ہے یا پھر یہ شعر پاکستان کے موجودہ صورتحال کی من و عن بلا کسی ملاوٹ کے منظر کشی کررہا ہے
برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی اُلوّ کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلوّ بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
یقین جانیے اس وقت پاکستان کا کوئی ایک محکمہ، کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جو درست سمت پر چل رہا ہو، ہر کوئی چل چلاﺅ سے کام لے رہا ہے کیونکہ جو اصل حکومت چلانے والے ہیں ان میں کوئی سوجھ بوجھ نہیں اور نہ ہی وہ خود کو کسی کے آگے جواب دہ خیال کرتے ہیں، اس وقت ملک میں چیک اینڈ بیلنس ختم ہو گیا، نہ تو عدالت کا ڈر اور نہ ہی صحافت کا۔۔۔؟ اور جو بظاہر حکمرانی کررہے ہیں انہیں بھی کھلی چھوٹ مل گئی، کوئی کچھ بھی نہیں کررہا ہے، سوائے حرام کھانے کے۔۔۔ بارش سے جس طرح سے سرخی پاﺅڈر دھل جاتا ہے اور بھیانک چہرے بے نقاب ہو جاتے ہیں اس طرح سے استکاریوں سے ڈھانپے شہر اور بستیاں بھی بارش کی وجہ سے کھنڈرات کی شکل میں سامنے آنا شروع ہو گئی ہے اس طرح کی صورتحال میں لوگ اپنے ہی ملک پر جہنم کو ترجیح دیتے ہوئے بھاگنے کو ترجیح نہیں دیں گے تو پھر کیا کریں گے۔۔۔
حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ صورتحال ان کے ہاتھ سے نکل جائے، ملک کو تباہی و بربادی میں جانے سے بچانے کے لئے انا اور ضد سے نکل کر عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہئے جو جس کا حق ہے وہ اسے دے کر ملک کو قانون کے حکمرانوں کے حوالے کر دینا چاہئے تاکہ قانون کی حکمرانی قائم ہو، اسی میں ملک اور قوم کی بھلائی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں