گزشتہ ہفتے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کردیئے گئے جس کے تحت پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کی حفاظت کی ذمہ داریاں اٹھائیں گے اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ممالک کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی سلسلے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاک سعودی فوجی تعاون کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ 1965ءکی پاک بھارت میں ہونے والی جنگ میں سعودیہ نے پاکستان کی بڑی پیمانے پر مدد فراہم کی۔ 1967ءمیں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب کی تمام افواج کی تربیت کی ذمہ داری پاکستان کو سونپ دی گئی۔ 1982ءمیں دفاعی معاہدے کے تحت مملکت میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی اور مشترکہ مشقوں پر کام شروع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لئے ہر طور اور خاص کر پاکستان کے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ سلطنت سعودیہ کا دفاعی بجٹ دنیا میں چوتھی پوزیشن پر مانا جاتا ہے اس کے پاس دفاعی اسلحہ کثیر مقدار میں ہے مگر اسے استعمال کرنے کی تجربہ کار صلاحیت موجود نہیں جب کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں منفرد مقام رکھتی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا ہے جب مشرق وسطیٰ پر اسرائیل کی طرف سے جارحانہ اقدامات کا آغاز ہو چکا ہے۔ 9 ستمبر 2025ءکو قطر پر حملے نے عرب ممالک کو اس خطرے کی طرف متوجہ کیا کہ گو کہ امریکہ اور ان کے درمیان گزشتہ دہائیوں سے خوشگوار تعلقات قائم ہیں امریکی صدر ٹرمپ اپنے دور ٰثانی کے اوائل ہی سے عرب ممالک سے گہرے تجارتی روابط قائم کر چکے ہیں اور یہ یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وہ عرب ممالک سے مزید دوستانہ تعلقات کے شدید خواہاں ہیں۔ کئی عرب ممالک میں امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کیمپوں میں موجود ہے۔ خاص طور پر قطر کی حکومت نے اس وقت امریکہ کے ساتھ ایک کثیر تجارتی معاہدہ کیا ہے اور خلیجی علاقوں میں وہاں امریکی فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے، کئی عرب ممالک امریکہ کی ایماءپر درپردہ اور کئی حکومتی طور پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھتے ہیں اس تمام کے باوجود امریکہ اسرائیل کو قطر پر پیش قدمی کرنے سے نہ روک سکا اور حماس کو ٹھکانے لگانے کے بہانے قطر پر حملہ کردیا گیا، اس سے قبل فلسطین پر حملوں کے سلسلے کے ساتھ اسرائیل لبنان، شام، یمن، تیونس اور ایران پر حملے کرچکا ہے اور اسرائیل کے اعلان کے مطابق ان تمام کارروائیوں میں ہمیشہ امریکہ کی رضا مندی شامل رہی ہے سعودی عرب کے تعلقات خصوصی طور پر امریکہ سے ہمیشہ بہت ہی مضبوط رہے ہیں، سعودی عرب امریکی جنگی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے مگر اس وقت سعودی عرب کا پاکستان سے دفاعی معاہدہ اس حقیقت کو عام کررہا ہے امریکہ کی جانب مسلم ممالک کی جانب سے بے اعتمادی کی فضا قائم ہو رہی ہے یہ معاہدی موجودہ عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں ایک غیر معمولی سفارتی پیش رفت کی شکل رکھتا ہے خاص طور پر فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے جو بے چینی پائی جاتی ہے اسرائیل اپنی کارروائیوں میں عالمی قوانین کی ہر شق سے بالاتر نظر آرہا ہے ایک ایسے وقت میں جب عالمی طور پر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اسرائیل اپنے سب سے بڑے حلیف امریکہ کی بھی کچھ سننے کو تیار نہیں۔ امریکہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اقوام عالم میں اپنی گزشتہ حیثیت سے تنزلی کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے اور یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ اپنی دفاعی حیثیت کے استحکام کے لئے کچھ نئے راستے ڈھونڈنے ہوں گے۔ سعودی اور پاک دفاعی معاہدہ کی وجہ سے خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بھی اس قسم کے معاہدوں کے کئی راستے کھل سکتے ہیں۔
پاک سعودی معاہدے کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی اس کا اندازہ ہو گا کہ اس معاہدہ میں کیا امور طے پائے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطین کی ہولناک بربادی پر مسلم ممالک کی خاموشی نے تمام مغربی کے لئے راستے ہموار کئے اسرائیل اور امریکہ کی طرف داری کے بلکہ اس تمام ہولناکی کو درگزر کرتے ہوئی مسلم ممالک مصروف رہے نئی امریکی حکومت سے کثیر تجارتی معاہدے کرنے میں۔ یہ تمام واقعات دروازے کھولتے ہیں ابہام کی طرف کہ آیا یہ صرف ایک دفاعی معاہدہ ہے یا درپردہ کچھ اور بھی عوامل زیر غور ہیں۔ سعودی عرب کے تعلقات امریکہ سے ہمیشہ ہی بہترین رہے ہیں امریکہ اس وقت تمام مسلم ممالک پر زور دے رہا ہے کہ ابراہیمی معاہدے میں شرکت کی جائے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی ابتداءکی جائے۔ کیا اس پاک سعودی معاہدے میں امریکہ کی منشا بھی کسی طور پر شامل ہے؟ کیا مستقبل میں پاکستان کی نیوکلیئر طاقت کو کسی طرح Compromise کرنے پر کوئی قدم اٹھانے کا راستہ تو نہیں نکالے جانے کی کوئی صورت تو نہیں پیدا کی جائے گی۔ پاکستان تمام مسلم ممالک کے درمیان واحد ملک ہے جو یہ استطاعت رکھتا ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں امریکہ نے چھٹی بار ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو جارحیت جاری رکھنے میں تعاون کیا ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی اسلامک کانفرنس بھی فلسطین کے معاملے پر کوئی بھی مضبوط قدم اٹھانے سے ناکام رہی۔ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کے علاوہ واحد مسلم ریاست ہے جو کسی بھی طور پر بڑی طاقتور کے لئے ایک مضبوط جنگی حریف بن سکتا ہے جب کہ پاکستان ہر طور یہ باور کروا چکا ہے کہ جوہری توانائی کا حصول صرف حفاظتی اقدامات ہیں۔ ایران کے پاس جوہری توانائی کی وہ قوت نہیں مگر پھر بھی ایران پر اسرائیل کی جارحانہ کارروائی کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مضبوط اور کئی دہائیوں پر محیط رہے ہیں۔ امید یہ ہی رکھنی چاہئے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مربوط اور رشتہ قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
