Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 118

کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں!

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ”کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا“۔ دوسری جنگ عظیم میں جب لندن میں جرمن طیارے بمباری کررہے تھے تو برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا ”اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو ہمیں شکست نہیں ہو سکتی“ یہ دونوں تاریخی قول کو کس طرح سے پاکستان کی موجودہ طرز حکمرانی چیلنج کررہی ہے، میں یہ کہنے کی گستاخی اور بے ادبی تو نہیں کر سکتا کہ پاکستان کی موجودہ بے لگام غیر قانونی اور غیر اخلاقی طرز حکمرانی ان دونوں قولوں کی پوری طرح سے نفی کررہی ہے اس وقت پاکستان میں بدترین قسم کی ظلم کی حکومت چل رہی ہے کسی کی عزت آبرو جان و مال محفوظ نہیں، انسانی حقوق کو قدموں کی ٹھوکر بنا دیا گیا ہے، جنگل کا قانوناً راج ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، عدالتی نظام اپنی افادیت کھو چکا، انصاف دم توڑ چکا، چھوٹی بڑی عدالتوں کے ججز سرکاری افسران بن چکے ہیں۔ پولیس افسروں کی طرح سے وہ بھی اوپر سے ہدایات لیتے ہیں اور اس کے مطابق اس پر عمل کرتے ہیں یعنی پکڑنے والا تفتیش کرکے چالان کرنے والا اور عدالتوں سے انہیں سزائیں دلانے والا یا پھر یہ سارے اختیارات کسی ایک شخص کے ہاتھ میں ہی آگئے ہیں یعنی اب قانون اور انصاف کے بینر تلے ہی مخالفین کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے اور بدقسمتی سے مخالفین بھی کوئی ملک دشمن عناصر پڑوسی ممالک کے رہنے والے نہیں بلکہ پاکستان کے وہ شہری ہیں جو اس ملک پر قابض لوگوں کے مقابلے میں زیادہ محب الوطن اور قانون پسند ہیں انہیں ہی حب الوطنی اور حقیقی آزادی کے علاوہ قانون کے حکمرانی کے مطالبے سے دست بردار کرنے کے لئے ان پر ظلم و نا انصافی کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں آخر یہ ظلم اور نا انصافی کا نظام کب تک چل سکتا ہے دوسری جانب پاکستان کی آزادی کی دعویدار صحافت نے بھی اس ملک سے وفاداری اور آزادی صحافت کے علمبرداری کا حق ادا کرتے ہوئے اس ظلم کے نظام کی سہولت کاری کرتے ہوئے اچھا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے ظالموں کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے اور اب انہیں نہ کوئی روکنے والا رہا اور نہ ہی ٹھوکنے والا۔ پولیس عدالتیں اپنی، پارلیمنٹ اپنی، جمہوریت اپنی، اب وہ جس طرح سے چاہیں قانون سازی کرواسکتے ہیں اپنی قانون شکنی کے ہاتھ میں قانون سازی کی مشینری آگئی اسی قانون سازی اسمبلی کے ذریعے ایک ایک آزاد ادارے کو ان کی آزادی سے محروم کرتے چلے جارہے ہیں۔
پیکا ایکٹ کے تحت سارے چوروں اور ڈاکوﺅں کو قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا۔ 25 ویں اور 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام کو کولہو کا بیل بنا دیا گیا۔ ملک اور اس کے معاشرے سے اچھے اور برے کا فرق خود قانون کے ذریعے انصاف کے ذریعے ختم کروادیا گیا۔ سرکاری سطح پر جھٹ کو پروان چڑھایا جارہا ہے اور بدقسمتی سے ملک کے بڑے بڑے اینکر پرسن اور بڑے بڑے صحافی اس سرکاری جوٹ کا حصہ بن گئے ہیں اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے انہوں نے بھی اپنے ضمیر کا سودا کرلیا ہے اور اپنے اپنے فنکاری اور چرب زبانی سے جھوٹ کو سچ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔
وطن کو ہیرو اور ہیرو کو ولن بنا رہے ہیں مگر یاد رکھیں حضرت علیؓ نے غلط نہیں کہا تھا کہ ”کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں“۔ یہ ہو کر ہی رہے گا، ظلم و نا انصافی کی رات جتنی بھی لمبی کیوں نہ ہو جائے اس کے سویرے کا ایک نہ ایک دن آنا ہی ہوتا ہے اور وہ امن اور انصاف و سچائی کا سویرا جلد ہی آنے والا ہے جو لوگ اپنی رعونت اور فرعونیت پر آج اکڑ رہے ہیں انہیں حبیب جالب کے اس شعر کو نوشتہ دیوار سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاق تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاﺅ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں نہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں