عدالتی فیصلے ملک کے سیاسی بحران میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، پنجاب کے وزارت اعلیٰ سے متعلق عدالتی فیصلے سے سیاسی جوالا مکھی پھٹ گیا، ریتوں پر بنائے جانے والا شیش محل دھڑام سے نیچے گر گیا، ساری گیدر بھبکیاں بے کر میں گئی۔ پی ڈی ایم کے سیاسی پنڈتوں کی سلطان راہی بننے کی ساری کوششیں رائیگاں گئی، مفاہمتوں کے شہنشاہ کی سناری بازیگری دھری کی دھری رہ گئی۔ قانون انصاف اور اخلاقی قدریں جیت گئی، دھوکہ اور مکر و فریب کو منہ کی کھانا پڑی۔
عدالتی فیصلے نے پی ڈی ایم کے چہرے پر پڑے عدالت کے احترام کے سارے پردے کھسکا دیئے اور ان کا اصل اور مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے سے جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ سیاست کی جوالا مکھی پھٹ چکی ہے جو ایک جمود ملکی سیاست پر طاری تھا وہ ٹوٹ چکا ہے، پوری پی ڈی ایم وزیر اعظم ہاﺅس میں سرجوڑ کر بیٹھ گئی ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل بنایا جارہا ہے کہ انہیں اب آگے کیا کرنا ہے، ان کے پاس سوائے نئے الیکشن کے اور کوئی آپشن باقی نہیں رہا، حکومت کا اپنی مدت پوری کرنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ اب صرف دارالحکومت اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، یہ ہی حال مونچھوں والی سرکار کے وزارت داخلہ کا رہ گیا ہے، اس وجہ سے اب انہیں اپنی رہی سہی عزت بچانے کا ایک ہی راستہ الیکشن کا رہ گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے بیٹے فضل محمود کی وزارت کی قربانی فی الحال دینے کو تیار نہیں، کیونکہ ابھی کنسٹرکشن کے ٹھیکوں کا سیزن شروع ہوا ہے، یہ ہی حال نوازئیدہ وزیر خارجہ کا ہے، وہ بھی سکتے میں آگیا ہے انہیں بھی اپنی وزارت جاتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے لیکن اطلاع یہ بھی ہے کہ مفاہمتوں کے شہنشاہ کو مقتدر حلقوں نے جنرل الیکشن کے لئے راضی کرلیا ہے اور وہی اس وقت اس پی ڈی ایم میں ماسٹر ”کی“ کا کردار ادا کررہے ہیں انہوں نے ہی پوری پی ڈی ایم کو متحرک کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ نون اور مولانا کی جماعت تو پہلے ہی الیکشن کے لئے تیار تھی مگر آصف علی زرداری نے ہی انہیں مدت پوری کرنے کے لئے مجبور کیا تھا، اس میں خود مسٹر آصف علی زرداری کے کون سے خفیہ مقاصد تھے یہ تو وہ خود بھی بہتر جانتے ہیں لیکن جس طرح کی صورتحال اب بنتی جارہی ہے اس سے تو پنجاب کے سیاست کے دو بڑے خاندان شریف برادران اور چوہدری برادران ہی نہ صرف متاثر ہوئے ہیں بلکہ ان میں ایک طرف سے دوریاں اور نفرتیں بھی پیدا کردی گئی ہیں بلکہ ان دونوں پارٹیوں کو اندر سے ایک طرح سے کمزور کردیا گیا ہے اور ان دونوں کی سیاسی طور پر کمزوری کا سب سے بڑا فائدہ اگر پی ٹی آئی کو پہنچے گا تو اس میں سے کچھ حصہ پیپلزپارٹی کو بھی ملے گا اور سینٹرل و جنوبی پنجاب میں پی پی پی کی حالت بہت ہی بہتر ہو جائے گی اسے اگر جمہوری یا مفاہمتی انتقام کہا جائے تو غلط نہ ہو گا اور اس تاریخ ساز کارنامے پر آصف زرداری یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے انتہائی خوبصورتی سے اپنے پتے کھیلے ہیں اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینے کے بعد وہ جس طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے ریڈار پر آگئے تھے جس طرح سے اسٹیبلشمنٹ ان کی بدترین مخالف ہو چکی تھی وہ آصف زرداری کی فنکارانہ صلاحیتوں اور بازی گری اب ان کے اتنے قریب آچکی ہے کہ اس وقت پاکستان میں آصف علی زرداری ہی ان کے سب سے بڑے سہولت کار بن چکے ہیں۔
موجودہ سیاسی بحران میں آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کا بہت زیادہ ساتھ دیا ان کے بہت بڑے بڑے مسائل ہنستے ہنساتے حل کرادیئے۔ اس وقت بھی آصف زرداری کا کاندھا وہ استعمال کررہے ہیں، خدا جانے انہوں نے زرداری کو دوبارہ صدر بنوانے یا پھر بلاول کو وزیر اعظم بنوانے کی یقین دہانی کروائی ہے یا معاملہ کچھ اور ہے لیکن جو بھی ہے دونوں اس وقت ایک دوسرے کے قریب ہو چکے ہیں۔ آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی اس وقت اپنے عروج پر ہے اور پوری پی ڈی ایم ان کے اشارے پر ہی دم ہلاتی ہوئی نظر آرہی ہے اور آصف زرداری جیو اور جینے دو کی پالیسی پر ہی اس وقت سیاسی معاملات آگے بڑھا رہے ہیں۔
